لکھنے والے ۔ ابویحییٰ
’’فرشتوں پر ایمان کا مطلب کیا ہے؟‘‘، یہ آج کی نشست کا آغاز تھا جس کے شروع ہی میں عارف نے حاضرین مجلس کے سامنے ایک سوال رکھ دیا تھا۔ مجلس میں موجود ایک صاحب علم نے جواب دیا۔ ’’مشرکین عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ فرشتوں کا خدائی میں کوئی حصہ ہے۔چنانچہ قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ معبود نہیں بلکہ بندے ہیں۔ وہ رب کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے نہ ان کا پروردگار کی خدائی میں کوئی حصہ ہے۔‘‘
’’مشرکین کے بعد سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کے لیے فرشتوں پر ایمان کا کیا مطلب ہے؟‘‘، ان کے جواب کو قبول کرتے ہوئے، مگر اس کے ساتھ اپنے اصل مدعا کو واضح کرنے کے لیے عارف نے اپنا سوال کچھ مختلف انداز سے دہرایا۔ اس دفعہ نشست میں کوئی آواز نہیں ابھری۔ مطلب صاف تھا کہ اب لوگ عارف کی بات ہی سننا چاہتے ہیں۔ وہ گویا ہوئے:
’’بے شک فرشتے معبود نہیں نہ خدائی میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ مگر ہمارے لیے ان پر ایمان کے حوالے سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ وہ ہماری خلوت و جلوت کے ساتھی ہیں۔ ہماری زبان کا ہر لفظ وہ لکھ لیتے اور ہمارے ہر فعل کے گواہ بن جاتے ہیں۔ وہ امین ہیں، بہت طاقتور ہیں، بہت عزت والے ہیں۔ ہم نہ ان کو رشوت دے سکتے ہیں۔ نہ انہیں کچھ لکھنے سے روک سکتے ہیں نہ ان کا لکھا بدل سکتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا لکھا ہوا ہی ہماری ابدی زندگی کا فیصلہ کرے گا۔
سو ان پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا عمل بدل جائے۔ جس کا عمل بدل گیا وہی حقیقتاً ایمان والا ہے۔ اور جس کا عمل نہیں بدلا وہ بس نام کا مسلمان ہے۔‘‘ عارف کی بات ختم ہوگئی، مگر بات دلوں میں اتر گئی۔ فرشتوں نے عارف کی ان باتوں کو بھی لکھ لیا اور حاضرین کی سماعتوں کو بھی نامہ اعمال میں درج کرلیا۔