لی آئیاکوکا میرا استاد ۔ جاوید چودھری
میں نے پچھلے دنوں ایک بزنس میگزین میں ’’لی آئیاکوکا‘‘ کا ایک انٹرویو دیکھا تو میں چونک اٹھا، میں 1984ء سے ’’لی آئیاکوکا‘‘ کا فین ہوں، میں اس وقت آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ ایک کار ساز کمپنی کریسلر دیوالیہ ہوگئی ہے اور صدر ریگن نے اسے بچانے کے لیے نہ صرف اپنا جاپان کا دورہ منسوخ کر دیا ہے بلکہ صدر نے اپنا دفتر بھی کریسلر کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں منتقل کر دیا ہے، انہی دنوں میں نے اخبار میں صدر ریگن کی ایک تصویر دیکھی جس میں وہ ایک سفید فام شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھے مسکرا رہے تھے، تصویر کے نیچے کیپشن تھا ’’امریکی صدر کریسلر کے نئے چیف ایگزیکٹو لی آئیاکوکا کے ساتھ‘‘ میرے لیے یہ نام بہت دلچسپ اور انوکھا تھا لہٰذا یہ نام میرے دماغ سے چپک گیا، انہی دنوں میں نے خبر پڑھی’’لی آئیاکوکا‘‘ نے امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کانگریس سے بینک گارنٹی لے لی، بہرحال ان دنوں عمر کے جس حصے میں تھا اس میں ان تمام باتوں کا ادراک نہیں ہوتا۔ مجھے بھی یہ ساری باتیں سمجھ نہ آئیں۔ بس لی آئیاکوکا اپنے نام کی انفرادیت کی وجہ سے میرے ذہن میں رہ گیا، 1991ء میں میں یونیورسٹی میں تھا تو میں پہلی بار تفصیل کے ساتھ ’’لی آئیاکوکا‘‘ سے متعارف ہوا، ہمارے ایک استاد تازہ تازہ امریکہ سے لوٹے تھے اور وہ وہاں سے لی آئیاکوکا کی آٹو بائیو گرافی’’لی آئیاکوکا۔۔۔ این آٹو بائیوگرافی‘‘ لائے تھے، یہ کتاب ولیم نو واک اور لی آئیاکوکا نے مل کر لکھی تھی، میں نے یہ کتاب ان سے لی اور پڑھنا شروع کر دی، میں جوں جوں یہ کتاب پڑھتا گیا میں توں توں لی آئیاکوکا کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا گیا اور میرے اوپر حیرتوں کے نئے باب کھلتے چلے گئے۔
لی آئیاکوکا 15 اکتوبر 1924ء کو پین سلوینا کے ایک چھوٹے سے قصبے ایلن ٹاؤن میں پیدا ہوا، اس کے والدین اٹلی سے نقل مکانی کر کے امریکہ پہنچے تھے، اس کے والدین نے اس کا نام لیڈو انتھونی آئیاکوکا رکھا تھا، والدین غریب تھے، آئیا کوکا کو پڑھنے کا شوق تھا لہٰذا اس نے جوں توں یونیورسٹی سے انڈسٹریل انجینئرنگ میں گریجوایشن کی اور کارساز کمپنی فورڈ میں انجینئر بھرتی ہوگیا، اس نے دوسال یہ کام کیا پھر اسے محسوس ہوا وہ اس کام کے لیے نہیں بنا، وہ فیکٹری کے جنرل منیجر سے ملا اور موجودہ تنخواہ سے آدھے معاوضے پر سیلز ڈیپارٹمنٹ میں چلا گیا، وہاں جا کر اس کی ترقی کو پر لگ گئے۔ اسے گاہکوں کے چہرے پڑھنے کا ملکہ حاصل تھا اور وہ بہت جلد مارکیٹ کا رخ بھانپ لیتا تھا چنانچہ اس نے سیلز کے ساتھ ساتھ کمپنی کو گاڑیوں کے نئے ڈیزائن بنا کر دینے شروع کر دیے، فورڈ کی مشہور گاڑی MUSTANG بھی لی آئیاکوکا ہی کی تخلیق تھی، اس کے بنائے ماڈلوں نے کمپنی کے کاروبار میں کئی گنا اضافہ کر دیا اور لی آئیاکوکا ترقی کرتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ فورڈ کمپنی کا صدر بن گیا، 1975ء میں جب اس کی عمر محض پچاس برس تھی تو لوگ اسے آٹو موبائل کا آئن سٹائن کہتے تھے، 1978ء میں اس نے فورڈ کو دو نئے ڈیزائن دئیے، ایک چھوٹی کار تھی اور دوسری منی وین یا فیملی کار، اس وقت امریکہ میں اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا، امریکی لوگ بڑی اور مضبوط گاڑیوں کے عادی تھے، یہ ڈیزائن جب بورڈ آف گورنر کے سامنے پیش ہوئے تو کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہنری فورڈ ٹو نے دونوں ڈیزائن مسترد کر دئیے، لی آئیاکوکا اور فورڈ میں اختلافات پیدا ہوئے اور اس نے استعفیٰ دے دیا۔ ان دنوں کریسلر کمپنی دم توڑ رہی تھی، کریسلر کبھی امریکہ کی سب سے بڑی آٹو موبائل کارپوریشن ہوتی تھی لیکن پے در پے نقصانات کے باعث وہ دیوالیہ ہو رہی تھی۔ اس وقت کمپنی کے ڈائریکٹروں نے سوچا اگر کسی طرح لی آئیاکوکا کریسلر کے ساتھ وابستہ ہوجائے تو کمپنی ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہوجائے گی، لی آئیاکوکا نے یہ چیلنج قبول کرلیا۔ اس نے ہڈ حرام ملازم فارغ کئے، کمپنی کی یورپی ڈویژن فروخت کر دی اور فورڈ کے بعض اچھے ورکرز کو کریسلر میں لے آیا لیکن کمپنی میں جان پیدا نہ ہوئی، اسے محسوس ہوا اگر کمپنی کو کہیں سے دو بلین ڈالر مل جائیں تو کمپنی دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے مگر کوئی بینک کریسلر کو قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا، اس نے یورپ کے ایک بینک سے مذاکرات کئے، بینک قرضہ دینے کے لیے تیار ہوگیا لیکن اس نے عجیب و غریب شرط رکھ دی، بینک نے کہا اگر امریکی حکومت گارنٹی دے تو ہم کمپنی کو ڈیڑھ بلین ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں، یہ ایک ناقابل عمل شرط تھی لیکن لی آئیاکوکا نے کوشش کا فیصلہ کیا، اس نے ریگن سے بات کی اور ریگن نے اس کا کیس کانگریس کے سامنے رکھ دیا، کانگریس نے اسے طلب کرلیا، لی آئیاکوکا نے کانگریس میں جس خوبصورتی سے اپنا موقف پیش کیا وہ بذات خود ایک تاریخ ہے، اس نے کہا اگر کریسلر بند ہوگئی تو یہ امریکہ جیسی سپر پاور کی شکست ہوگی، دنیا یہ کہے گی جو امریکہ ایک کارساز کمپنی نہیں چلا سکتا وہ دنیا پر خاک حکمرانی کرے گا، اس نے بتایا اگر کریسلر بند ہوگئی تو دو لاکھ امریکی بے روزگار ہو جائیں گے، امریکی کاریں دنیا میں اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گی اور ہم لوگ شرمندگی سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے وغیرہ۔ قصہ مختصر لی آئیاکوکا نے کانگریس کو قائل کرلیا، کانگریس نے بینک کو گارنٹی دے دی، کریسلر کو ڈیڑھ بلین ڈالر مل گئے۔
لی آئیاکوکا نے فوری طور پر وہ دونوں ماڈل بنوائے جن کی وجہ سے اسے فورڈ چھوڑنا پڑی تھی ’’کے کار‘‘ کریسلر کی ایک چھوٹی کار تھی، جس وقت یہ گاڑی مارکیٹ میں آئی اس وقت امریکہ میں تیل کا بحران پیدا ہوچکا تھا، یہ ایک ہلکی پھلکی گاڑی تھی جو کم پٹرول استعمال کرتی تھی، یہ امریکہ کی پہلی چھوٹی کار تھی لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے ’’کے کار‘‘ پوری امریکی مارکیٹ پر چھا گئی، منی وین کریسلر کی دوسری بڑی پراڈکٹ تھی، یہ گاڑی بے شمار مقاصد پورے کرتی تھی، اس میں پورا خاندان آسکتا تھا، اسے لوگ ٹرانسپورٹیشن کے لیے بھی استعمال کرسکتے تھے، یہ گھر، فیکٹری، دوکان اور مارکیٹ ہر جگہ استعمال ہوسکتی تھی، اس گاڑی نے بھی کمال کر دیا، کریسلر کمپنی نے اپنی صرف ان دو پراڈکٹس کے ذریعے وقت سے کہیں پہلے سارا قرضہ ادا کر دیا، 80ء کی دہائی کے آخر میں لی آئیاکوکا نے اے ایم سی اور جیپ کے نام سے مزید دو گاڑیاں متعارف کرائیں ان گاڑیوں نے بھی اچھا بزنس کیا، ریگن لی آئیاکوکا کے بہت بڑے فین تھے، وہ کہا کرتے تھے ’’لی آئیاکوکا کو اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں دے رکھی ہیں‘‘ شاید یہی وجہ تھی صدر ریگن نے 1982ء میں لی آئیاکوکا کو مجسمہ آزادی فاؤنڈیشن کا سربراہ بنا دیا، لی آئیاکوکا نے عوام سے اپیل کی، ہم مجسمہ آزادی کی تزئین و آرئش کرنا چاہتے ہیں، یہ مجسمہ پوری امریکی قوم کا مشترکہ اثاثہ ہے، میری خواہش ہے تمام امریکی اس قومی خدمت میں ہمارا ساتھ دیں، اس کے الفاظ نے جادو کر دیا اور چند ہی دنوں میں 540 ملین ڈالر جمع ہوگئے۔
میں 2002ء میں امریکہ گیا تو میں اس کے دفتر چلا گیا، میں نے اس کے سیکرٹری سے 10 منٹ کا وقت لیا تھا، ٹھیک دس منٹ بعد یہ ملاقات ختم ہوگئی لیکن ایک بڑے انسان کی صحبت میں گزارے یہ دس منٹ میری زندگی کا اثاثہ تھے، اس ملاقات کے دوران میں نے اس سے صرف ایک سوال پوچھا، میں نے پوچھا ’’آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا ’’میرا والد‘‘۔ میں حیران ہوگیا۔ اس نے بتایا ’’میرا والد ہفتے میں ایک دن مجھے ڈنر کے لیے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں لے کر جاتا تھا، وہ کرسی پر بیٹھتے ہی بیرے کے ہاتھ پر دس ڈالر رکھ دیتا تھا اور اس سے کہتا تھا، یہ تمہاری ٹپ ہے، ہم ڈنر کے لیے آئے ہیں اور اب ہمارا ڈنر خراب نہیں ہونا چاہئے، اس کے بعد وہ ویٹر تمام گاہکوں کو چھوڑ کر ہماری خدمت میں جت جاتا تھا، میں نے والد کی اس عادت سے سیکھا اگر آپ کسی سے کام لینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اسے اس کا حصہ دے دیں، میں نے اسے اپنی زندگی کا اصول بنا لیا، پوری دنیا میں لوگ اپنے ورکروں کو سال کے آخر میں بونس دیتے ہیں لیکن میں ہمیشہ سال کے شروع میں اپنے ورکروں کو اکٹھا کرتا ہوں، ان سے کہتا ہوں، تم لوگ تخمینہ لگاؤ ہم سال کے آخر میں کتنا منافع کمائیں گے، وہ تخمینہ لگاتے ہیں، میں اس تخمینے کے مطابق انہیں سال کے شروع میں بونس دے دیتا ہوں اور اس کے بعد ان سے کہتا ہوں اب مجھے ٹارگٹ کے مطابق پیسہ کما کر دیں اور اس کے بعد ورکر کمال کر دیتے ہیں، میرے اس فارمولے کے باعث مجھے آج تک کوئی نقصان نہیں پہنچا، رہی کارپوریٹ لائف کی بات تو اس کے لیے چار اصول ہیں۔ سب سے پہلے آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپ نے کرنا کیا ہے؟ دوسرا اس کام کے لیے دنیا کے بہترین لوگ منتخب کریں، تیسرا اپنی ترجیحات طے کریں اور چوتھا چاہے ایک انچ ہی سہی اپنے ٹارگٹ کی طرف روزانہ تھوڑی تھوڑی پیش رفت کریں، آپ کبھی ناکام نہیں ہوں گے‘‘ میٹنگ ختم ہوگئی، میں باہر لفٹ میں آگیا، لفٹ سے نیچے اترتے ہوئے میں نے سوچا اگر انسان چاہے تو وہ دس ڈالر کے نوٹ سے بھی زندگی کا سب سے بڑا اصول وضع کرسکتا ہے اور وہ دس ڈالر کے نوٹ سے بھی دنیا کا بہت بڑا بزنس مین بن سکتا ہے۔