لڑکا آرہا ہے ۔ ابویحییٰ
مشتاق احمد یوسفی اردو زبان کے بے مثال مزاح نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب آب گم میں ایک قدیم سماجی اور اب عملاً متروک رسم یعنی آرسی مصحف کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس موقع پر جب دولہا زنانے میں دلہن کے ساتھ آکر بیٹھتا تھا تو اس کے آنے کی اطلاع یہ کہہ کر دی جاتی تھی کہ لڑکا آرہا ہے۔ اس کا سبب پردہ دار خواتین کو مطلع کرنا ہوتا تھا کہ وہ سنبھل کر بیٹھ جائیں۔ انھوں نے اس سے یہ دلچسپ نکتہ پیدا کیا کہ بہت سے لوگ بڑھاپے میں صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں یہ جملہ سن سکیں کہ لڑکا آرہا ہے۔ ورنہ اصلاً جس مقصد کے لیے شادی کی جاتی ہے، انھیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال ان مذہبی لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو خدا کے دین کے اصل مقصد یعنی نجات آخرت اور ایمان و اخلاق سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، مگر اس کے علاوہ انھیں مذہب کے نام پر رائج ہر چیز میں الجھنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ مذہب کے نام پر کیے گئے فرقہ وارانہ مناظرے ہوں، فقہی نکات ہوں، علمی مباحث ہوں، فنی موشگافیاں ہوں، معاصر مسائل ہوں؛ ہر چیز ان کی دلچسپی کا موضوع ہوتی ہے، مگر دین کا اصل مقصد یعنی نجات آخرت میں وہ زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں نہ ایمان و اخلاق کے اس راستے کو پوری طرح اختیار کرنا اور نصرت دین کے کام میں حصہ ڈالنا ان کا مسئلہ ہوتا ہے جو آخرت کی نجات اور بلندی درجات کا اصل راستہ ہے۔
ایسے لوگوں کی تمثیل یوسفی صاحب کے بیان کردہ واقعے میں اس شخص کی طرح ہے جس کی دلچسپی دلہن سے زیادہ اس بات میں ہے کہ لوگوں کو اپنے بارے میں یہ کہتا ہوا سنے کہ ”لڑکا آرہا ہے“۔ قیامت کے دن ایسے لوگ جب ”جنت کی دلہن“ کو سامنے دیکھیں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ جس چیز کو حاصل کرنے کا موقع انھیں ملا تھا، اسے انھوں نے بہت چھوٹی چیز کے لیے چھوڑ دیا۔