لبیک اللھم لبیک ۔ ابو یحییٰ
[پیش نظر مضمون ابو یحییٰ کے نئے ناول ’’آخری جنگ‘‘ میں بطور مقدمہ شامل ہے۔ آخری جنگ کے حوالے سے شائع کیے جانے والے اس خصوصی شمارے کا آغاز اسی مضمون سے کیا جا رہا ہے۔ ادارہ]
تاریخ کے طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی تاریخ کا ایک بڑا حصہ اُن جنگوں سے عبارت رہا ہے جن میں انسانوں کی جان، مال اور آبرو سب بے وقعت ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ اس دھرتی پر لڑی جانے والی اصل جنگ جس کے نتیجے میں باقی تمام جنگیں، خونریزی اور فساد برپا ہوتا ہے، انسانوں کے مابین نہیں بلکہ انسان اور شیطان کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے۔
قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا آغاز روزِ ازل اُس وقت ہوا جب ابلیس نے ہمارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے باوجود نہ صرف یہ کہ انکار کیا بلکہ اللہ تعالیٰ سے تاقیامت اس بات کی مہلت مانگی کہ اسے انسانوں کو گمراہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ بات مان لی گئی مگر اس جرم کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے شیطان پر ہمیشہ کے لیے لعنت کر دی گئی۔ یہ گویا کہ آج کی اصطلاح میں انسانیت پر کیا جانے والا تاریخ کا سب سے بڑا خود کش حملہ تھا جس میں شیطان نے اپنی مکمل تباہی کی قیمت پر انسانوں کو برباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے شیطان کا یہ حملہ اتنا کامیاب رہا ہے کہ ایک صحیح حدیث (بخاری، رقم 3348، مسلم، رقم 1028) کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے لوگ اس کی زد میں آکر جہنم کے مستحق ہوچکے ہیں۔
اس حملے کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنے اِس بدترین دشمن اور اپنے خلاف اِس کی جنگ سے سرے سے واقف ہی نہیں۔ وہ بے خبری میں انسانوں پر وار کرتا اور ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناشکری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی عنایت ہے کہ اس نے انسانوں کی اس بے خبری کو دور کرنے کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں ہزارہا انبیائے کرام کو بھیجا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا ادارہ ختم کر دیا گیا اور اب تاقیامت انسانوں کو یہ بتانا کہ شیطان ان کا سب سے بڑا دشمن ہے، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
شیطان اور انسان کی اس جنگ میں امت مسلمہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل گروہ ہے۔ وہ اگر اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں تو انسانیت کی بڑی تعداد کو شیطان کے چنگل سے چھڑا سکتے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کریں گے تو گویا خود شیطان کے مشن میں اس کے مددگار بن جائیں گے۔ چنانچہ امت مسلمہ شیطان کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ شیطان کے لیے اس امت کو نشانہ بنانے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی خواہشات کو دین اور اپنے تعصبات کو حق سمجھنے لگیں۔ جبکہ شیطان کے شر سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ لوگ قرآن مجید کو اپنی خواہشات اور تعصبات پر ترجیح دینے لگیں۔ چنانچہ انسان اور شیطان کی یہی جنگ، اس جنگ میں امت مسلمہ کی اہمیت اور شیطان کا طریقہ کار ہی میرے اس نئے ناول ’’آخری جنگ‘‘ کا مرکزی خیال ہے۔
میرا پہلا ناول ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ حادثاتی طور پر وجود میں آیا، مگر اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی بات اتنے زیادہ لوگوں تک پہنچی جس کی مجھے کوئی امید نہ تھی۔ یہی معاملہ میرے دوسرے ناول ’’قسم اُس وقت کی‘‘ کا رہا۔ ’’آخری جنگ‘‘ میرے انہی دو ناولوں کا تسلسل ہے جس کی کہانی اُن کے مرکزی کرداروں یعنی عبد اللہ اور ناعمہ کے ارد گرد گھومتی ہے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ اِس ناول کے تمام کردار چاہے شیاطین ہوں یا انسان اور ان کے حوالے سے بیان کئے گئے متعین واقعات، سب فرضی ہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے اہم ہے کہ قارئین میرے ناول کے کرداروں سے بہت زیادہ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ خاص کر عبد اللہ اور ناعمہ سے۔ یہ دونوں دراصل علامتی کردار ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ ایک داعی اور ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ قارئین کو اِن کرداروں کو اِسی پہلو سے دیکھنا چاہیے۔
اس ناول میں شیاطین کی سوچ اور کارفرمائی زیر بحث آئی ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ چند مقامات پر استعمال ہونے والے بعض اسالیب کچھ صالح طبیعت لوگوں پر گراں گزریں۔ اسی طرح میرا اصل مقصد ناول نگاری نہیں تھا۔ اس لیے اختصار کے پیش نظر چند مقامات پر کہانی اور کردار نگاری کے بعض پہلوؤں سے صرف نظر کیا گیا ہے جو کچھ اہل ذوق کے لیے بار خاطر ہوگا۔ امید ہے کہ میرا عذر قبول کر کے دونوں طرح کے قارئین ان چیزوں پر درگزر فرمائیں گے۔
بحیثیت دین کے ایک ادنیٰ طالب علم کے میں نے اس مختصر ناول میں قرآن مجید کا ایک اہم اور بنیادی پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جو بات اس امت کے جلیل القدر اہل علم امت کے خواص کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، یہ ادنیٰ طالب علم اپنے سادہ اسلوب میں اب اسے عوام الناس تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس پیغام کو سمجھ کر عمل کرنے ہی میں دنیا اور آخرت کی ہماری نجات پوشیدہ ہے۔ اس پیغام کو بھولنے کا نتیجہ ماضی میں بھی تباہ کن رہا ہے اور شدید اندیشہ ہے کہ مستقبل میں بہت بڑی تباہی کا باعث بنے گا۔ میرے نزدیک اِس حقیقت کو سمجھ لینے ہی میں ہمارے عروج و زوال کا راز پوشیدہ ہے۔ تاہم ایک ناول تفصیلی علمی استدلال کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے اپنے ماہنامے ’’انذار‘‘ کے نومبر 2015 کے شمارے میں اپنے نقطہ نظر کا علمی استدلال اور پس منظر بیان کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو دلچسپی ہو وہ یہ شمارہ پڑھ لیں یا ویب سائٹ inzaar.org پر دیکھ لیں۔
مجھے اس قوم سے بڑا حسن ظن ہے کہ یہ اللہ رسول سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ انہیں اگر درست بات بتائی جائے تو یقینا یہ توجہ سے سنیں گے۔ چنانچہ اسی احساس کے تحت آج یوم العرفہ کے دن جب خدا کے بندے اور بندیاں عرفات کے میدان میں خدا کی بندگی کا اقرار اور شیطان کے خلاف جنگ کا اعلان کر رہے ہیں، میں اس ناول کو مکمل کر کے اپنی قوم کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس عاجز نے اپنی بساط بھر کوشش کر کے قوم کے دل پر دستک دی ہے۔ مجھے نہیں خبر کہ یہ دستک کتنے دلوں کے دروازے کھولے گی۔ ۔ ۔ مجھے نہیں خبر کہ اس قرآنی دعوت کے جواب میں کتنے لوگ لبیک کہیں گے۔ لیکن جو لوگ شیطان کے خلاف اس آخری جنگ میں اترنے کا عزم کریں گے۔ جو لوگ قرآن مجید کی پکار کے جواب میں لبیک الھم لبیک کہتے ہوئے خدا کی طرف سے اٹھیں گے، انہیں دو باتیں یاد رہنی چاہییں۔ ایک یہ کہ اب وہ اپنے بدترین دشمن شیطان کے حملوں کی زد میں آجائیں گے۔ شیطان اپنے دشمنوں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ مگر اس سے زیادہ اہم دوسری بات ہے۔ وہ یہ کہ اللہ اپنے دوستوں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ جب عالم کا پروردگار ان کے ساتھ ہے تو ساری دنیا مل کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ پروردگار عالم ان کا محافظ بن کر اس دنیا میں بھی ان کی حفاظت کرے گا اور قیامت کے دن بھی انہیں اپنی بہترین رحمتوں سے نوازے گا۔ اس جنگ میں شکست شیطان کا مقدر ہے۔ اس جنگ میں فتح عباد الرحمن کا مقدر ہے۔ شرط یہ ہے کہ لوگ اپنی خواہشات کو دین نہ بنائیں بلکہ اللہ کی مرضی کے مطابق جو قرآن مجید کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے، خود کو ڈھالیں۔ یہی اس ناول کا اصل پیغام ہے۔
ابو یحییٰ
یوم العرفہ
1436 ہجری