کیا جنت کی طلب لالچ ہے؟ ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا بدلہ جنت یا اس کی نعمتوں کی شکل میں لیا جائے، یہ بات کچھ لوگوں کوبہت معیوب لگتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ لالچ کے جذبے سے نیکی کرنا ہے جو ایک غلط چیز ہے۔ ایسے خیالات کا عکاس اقبال کا یہ مشہور شعر ہے۔
سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اس طرح کے لوگ قرآن مجید میں جنت اور نعمتوں کے بیان کو شرف انسانیت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ ان چیزوں کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ تاہم اس طرح کی باتیں دیکھنے اور سننے میں کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ لگیں، خلاف واقعہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر حال میں بدلہ چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ جس وقت کوئی انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے کوئی بدلہ نہیں چاہیے، اس وقت بھی وہ بدلے میں ایک روحانی سکون ضرور لے رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص مادی بدلے کی خواہش نہیں رکھتا، مگر بہرحال وہ ایک غیر مادی بدلے یعنی اطمینان اور سکون کو ضرور چاہتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان ایک مخلوق اور بندہ عاجز ہے۔ وہ ہر ہر قدم پر اپنے مالک کی عنایات کا محتاج ہے۔ وہ سانس لینے، پانی اور غذا نگلنے اور دیگر بنیادی ضروریات تک کے لیے بھی اپنے رب کی مدد کا محتاج ہے۔ جو بندہ اتنا عاجز ہو، اسے اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف اللہ رب العالمین کی ہستی ہے جو الغنی یعنی جو ہر ہر پہلو سے بے نیاز اور ہر قسم کی محتاجی سے پاک ہے۔ باقی ہر شخص محتاج ہے اور نعمت کے بغیر جی نہیں سکتا۔ جنت کی طلب اسی بات کا اعتراف ہے نہ کہ کسی قسم کے لالچ کا اظہار ہے۔