کوئل کی کوک ۔ ابویحییٰ
کوئل کی کوک ان خوبصورت ترین آوازوں میں سے ایک ہے جنھیں انسانی کانوں نے کبھی بھی سنا ہے۔ گرمیوں کی آمد پر سیاہ رنگ کا نر جب کوکنا شروع کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ درختوں کی ہر شاخ ہوا کے دوش پر جھومنا شروع ہوگئی ہے۔ پتوں کی سرسراہٹ اور ہوا کے جھونکوں کے درمیان بلند ہوتی یہ کوک گرمی کی تپش کا احساس بہت کم کر دیتی ہے۔ کوئل اگر آم کے درخت پر کوک رہا ہو تو لگتا ہے کہ آموں کی تمام تر مٹھاس کوئل کی کوک میں سرائیت کرگئی ہے اور آم کا درخت باآواز کوئل اپنی مٹھاس کو اردگرد کے ماحول میں تقسیم کر رہا ہے۔
کوئل کی کوک کو سننے کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے۔ یہ زاویہ ایک بندہ مومن کا زاویہ ہے۔ ایسا بندہ جو ہر لحظہ خدا کی یاد میں جیتا اور ہر شے میں اسی کی عنایت کا عکس تلاش کرتا ہے۔ ایسے مومن کی درِسماعت پر کوئل کی دلکش کوک جب دستک دیتی ہے تو بے اختیار اسے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات کی حمد اور اس کی شکر گزاری کے لیے جس مٹھاس، جس محبت اور جس احساس کی ضرورت ہے، کوئل کی کوک اسی ضرورت کے جواب میں تخلیق کی گئی ہے۔
پروردگار عالم کے ہر مخلوق پر ان گنت احسانات ہیں۔ مگر سب سے بڑھ کر اس کے احسان حضرت انسان پر ہیں۔ اس لیے کہ انسان کو ہر نعمت ملی ہے اور نعمتوں کو محسوس کرنے والا دل بھی ملا ہے۔ مگر اکثر لوگوں کو ان نعمتوں کا شکر کرنے والا دل نہیں ملا ہوتا۔ مگر جن خوش نصیبوں کو یہ دل مل جائے وہ تازیست اسی احساس سے تڑپتے رہتے ہیں کہ خدا کے شکر اور حمد کے لیے کوئی لفظ کافی نہیں ہے۔
ایسے میں گرمیوں کی دوپہر میں جب کوئل کوکتی ہے تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں ان کی تلاش کا جواب مل گیا۔ ان کی آنکھوں سے شکر گزاری کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ خدا کے فرشتے ان آنسوؤں کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹنے کے لیے دوڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ محبت اور شکر گزاری میں ڈوبے یہ آنسو نمکین نہیں بلکہ کوئل کی کوک کی طرح میٹھے ہیں۔ وہ مٹھاس جس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔