خواہشات اور گناہ ۔ ابویحییٰ
خواہش گناہ کی طرف لے جانے والے عوامل میں سب سے بڑا عامل ہے۔ انسان کی تخلیق جس ڈھنگ پر ہوئی ہے اس میں انسان کے اندر بہت سی جبلتیں رکھ دی گئی ہیں۔ مثلاً کھانے پینے، تحفظ اور جنسی تعلق قائم کرنے کی جبلتیں وغیرہ۔ یہ اور ان جیسی دیگر جبلتوں سے انسان کی ضروریات پیدا ہوتی ہیں۔ جبلتوں کے ساتھ انسان کو ایک ذوقِ جمال بھی عطا کیا گیا ہے۔ وہ ضرورت سے آگے بڑھ کر لذت، خوبصورتی اور کشش جیسے تصورات سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ان کی طرف لپکتا ہے۔ یہ ضروریات اور جمالیات جب اپنا ظہور کرتے ہیں تو خواہشات جنم لیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں چونکہ انسان کو امتحان کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس لیے خواہشات کی تسکین کے لیے اسے کھلی چھوٹ نہیں دی ہے۔ بلکہ اس کی ضروریات اور خواہشات کو ایک خاص دائرے کا پابند بنایا ہے۔ مگر انسان اپنے امتحان کو سمجھنے کے بجائے خواہشات کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے۔ جس کے بعد حلال حرام، جائز ناجائز اور صحیح و غلط کی بحث اس کے لیے غیرمتعلق ہوجاتی ہے۔ اور رب کی نافرمانی انسان کی زندگی کا معمول بن جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے تمام پاکیزہ اشیا کا کھانا پینا حلال قرار دیا ہے۔ مگر اکثر انسانی معاشروں میں خنزیر کا گوشت اور شراب معمول کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلق کو انسانوں کے لیے جائز قرار دیا ہے۔ مگر بہت سے انسان اس دائرے سے باہر نکل کر زنا کی وادیوں میں اپنی خواہشات کی تسکین ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زیب و زینت کو جائز قرار دیا ہے۔ مگر انسانی معاشروں میں زیب و زینت اکثر فحاشی، عریانی اور خواتین کی نمائش کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
یہ اور ان جیسی متعدد مثالیں یہ بتاتی ہیں کہ ضروریات کی تکمیل اور جمالیات کی تسکین کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جائز قرار دیا ہے، مگر انسانوں کی اکثریت ان چیزوں کے پیچھے چلتے چلتے رب کی نافرمانی کی منزل تک جاپہنچتی ہے۔ وہ خواہش کے لیے خدا کی اطاعت کا راستہ چھوڑ کر شیطان کی پیروری کا طریقہ اختیار کرلیتی ہے۔ وہ شیطان جو اللہ تعالیٰ کا مجرم ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کو یہ چیلنج دیا تھا کہ وہ انسانوں کو اپنا شکر گزار نہیں پائیں گے۔ بدقسمتی سے شیطان کے اس چیلنج کو انسان خواہشات کی پیروی میں درست ثابت کر دیتے ہیں۔
ایسے میں بندۂ مؤمن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے معاملے میں ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ شیطان خواہش کے دروازے سے اس کے دل میں داخل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ وہ خواہش کے اس دروازے پر تقویٰ اور پرہیزگاری کی چوکی قائم کرے۔ وہ ضمیر کے پہرے دار کو اس چوکی پر نگران مقرر کرے۔ وہ مسلسل یہ جائزہ لیتا رہے کہ کہیں خواہش کے دروازے سے ضروریات اور جمالیات کے ساتھ گناہ اور نافرمانی تو اس کے حرمِ دل میں داخل نہیں ہورہے۔ کہیں اس کی نگاہ، اس کی زبان، اس کا پیٹ اور دیگر اعضائے جسمانی حرام کی آماجگاہ تو نہیں بن رہے۔ کبھی ایسا ہو تو اُسے چاہیے کہ فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرے۔ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ توبہ اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرے۔ وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کو غفور و رحیم پائے گا۔ وگرنہ اس معاملے میں غفلت کا رویہ دل کو سیاہ کر دیتا ہے اور انسان خدا کو چھوڑ کر آخرکار خواہشِ نفسانی کو اپنا معبود بنا لیتا ہے،(الفرقان43:) ”اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ عنقریب اپنے گناہوں کا انجام جہنم کی آگ کی شکل میں بھگت لے گا۔“