خدا کی طاقت ۔ ابویحییٰ
’’جانتے ہو خدا کی طاقت کی انتہا کیا ہے؟‘‘، آج گفتگو کا آغاز عارف نے ایک سوال سے کیا تھا۔ یہ سوال کیا تھا علم و حکمت کے موتیوں کی ہونے والی برسات کی تمہید تھی۔ اس لیے لوگ خاموش نظروں اور سوالیہ چہرے کے ساتھ عارف کی سمت دیکھتے رہے تو وہ گویا ہوئے: ’’ایک ایسی دنیا میں جہاں خدا نظر نہیں آتا، جہاں اس کے منکر اور نافرمان عیش کرتے نظر آتے ہیں، جہاں انسان کو کلی اختیار اور آزادی حاصل ہے وہاں بھی حکم اسی رب کا چلتا ہے۔‘‘
پھر وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولے: ’’انسان کو کب اور کہاں پیدا ہونا ہے۔ کب مرنا ہے۔ کیا کمانا اور کیا کھانا ہے۔ کہاں رہنا اور کہاں بیاہنا ہے۔ اولاد کتنی ہوگی۔ رزق کتنا ملے گا۔ رنگ و روپ، شکل، اور صلاحیت کیسی ہوگی۔ خاندان اور قوم کون سی ہوگی۔ زندگی میں کیا ملے گا۔ کیا نہیں ملے گا۔ غرض زندگی کا ہر بنیادی اور اہم معاملہ اور زندگی کا ہر دائرہ اللہ کے اذن سے متعین ہوتا ہے۔ اس دائرے کے اندر انسان کو بس کچھ عمل کرنے کا ایک محدود اختیار حاصل ہے۔ اس میں بھی اعمال کے نتائج صرف اللہ کی مرضی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اب یہ بتایئے کہ جو خدا غیب میں رہ کر اتنا طاقتور ہے وہ سامنے آئے گا تو انسانی عجز کا عالم کیا ہوگا؟‘‘
’’انسان تو مجبور محض ہوجائیں گے۔‘‘، ایک صاحب نے جواب دیا تو عارف کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی وہ بولے:’’یہی عجیب بات ہے۔ انسان اگر مؤمن ہوا تو وہ دن اس کے عجز کا نہیں بادشاہی کا دن ہوگا۔ بادشاہ بھی ایسا کہ جو وہ مانگے ملے گا اور جو چاہے وہ دیا جائے گا۔ دنیا میں انسان کو جو عجز اور محرومی درپیش تھی اس کا ازالہ ہوجائے گا۔۔۔ جانتے ہو کہ یہ ابدی بادشاہی کس چیز کا بدلہ ہے۔‘‘ خاموشی کا ایک وقفہ آیا اور پھر عارف کی صدا بلند ہوئی: ’’یہ بدلہ ہے دنیا میں اپنی محدود آزادی کے مقابلے میں خدا کی طاقت کو دریافت کرنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا۔ جنت اسی دریافتِ عجز کا بدلہ ہے۔ بادشاہی اسی غلامی کا بدلہ ہے۔‘‘