خدا کا تصور ۔ ابویحییٰ
خدا کے حوالے سے دنیا میں تین تصورات رائج ہیں۔ ایک روایتی طور پر اہل مذہب کا تصور جس میں خدا موجود تو ہے لیکن انسان اس خدا کو صرف یقین کے زور پر پاسکتا ہے۔ اس تصور میں بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر معاملہ یقین کا ہے تو صرف خدا ہی نہیں کسی بھی ہستی کو یقین کے زور پر خدا سمجھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیحیت میں یقین کے زور پر حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا اور خدائی کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا تصور موجودہ دور میں رائج انکار خدا کا تصور ہے جس کے مطابق یہ دنیا کسی خدا کی تخلیق نہیں۔ یہ لامحدود طور پر وسیع و عریض کائنات محض بخت و اتفاق کی کارفرمائی سے وجود میں آگئی ہے۔ مگر اس تصور میں بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ کائنات اور ہماری دنیا ہر لمحہ، ہر قدم اور ہر موڑ پر اس کی تردید کرتے ہیں کہ یہ بغیر کسی خالق، کسی خارجی ارادے اور بغیر کسی بنانے والے کے وجود میں آگئے ہیں۔
خدا کا تیسرا تصور وہ ہے جو قرآن مجید میں ملتا ہے۔ اس تصور کے مطابق خدا پر کوئی یقین کرے نہ کرے، وہ بہر طور خارج میں موجود ایک زندہ حقیقت ہے جس نے انسان اور یہ پوری کائنات بنائی بھی ہے اور اس کا نظام بھی چلا رہا ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے ہونے کا ثبوت ہے۔ تاہم انسانوں کی آزمائش کی بنا پرایک محدود وقت کے لیے اس نے خود کو انسانوں کی نظر سے پوشیدہ کر رکھا ہے۔ ایک روز آئے گا جب وہ تمام انسانوں کو جمع کر کے خود ان کا حساب کرے گا۔ انسان اس کے آثار دیکھ کر اس کا یقین کر لیں تو یہی درست راستہ ہے۔
خدا کا یہی تصور عین عقلی اور فطری ہے۔ یہی حقیقت پسندی ہے۔ جو لوگ اس سے ہٹ کر جیتے ہیں ان کے حصے میں سوائے ندامت اور ذلت کے کچھ نہیں آئے گا۔