خزانے کا سانپ ۔ ابویحییٰ
کہانیوں میں ایک مشہور کہانی اس خزانے سے متعلق بیان کی جاتی ہے جس پر ایک ناگ پہرہ دیتا ہے۔ یہ ناگ کسی شخص کو اس خزانے تک پہنچنے نہیں دیتا۔ کہانیوں ہی سے خزانے کے سانپ کی مثال ہماری زبان میں عام ہوگئی ہے اور یہ اس شخص یا ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی مفید شے سے خود استفادہ کرتے ہیں نہ دوسرے کو کرنے دیتے ہیں۔
دین اسلام بلاشبہ ایک خزانہ ہے۔ یہ خزانہ آج کل عقائد، ایمانیات اور اعمال کی شکل میں ہے، مگر بہت جلد یہ آخرت کی ابدی دنیا میں مادی شکل میں ڈھل جائے گا۔ یہ فردوس کی اس بادشاہی میں بدل جائے گا جہاں انسان کو ہر تکلیف و دکھ سے بچا کر ہمیشہ رہنے والی نعمتوں اور راحتوں کی پرآسائش دنیا میں بسا دیا جائے گا۔
ختم نبوت سے قبل اس خزانے کی طرف لوگوں کو بلانے کی ذمہ داری خدا کے پیغمبروں کی تھی۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال دی گئی جو نبی آخر الزماں پر ایمان لے آئے۔ مگر آج کے مسلمان دوسرے تک دین پہنچانے کی ذمہ داری سے بالکل غافل ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یہ انہی لوگوں سے بدترین نفرت کا شکار ہیں جن تک ان کو خزانے کی اطلاع پہنچانی ہے۔ مسلمان اس کا سبب دوسروں کا ظلم بیان کرتے ہیں، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے قبل تاتاریوں نے مسلمانوں پر کہیں زیادہ ظلم کیا تھا۔ لیکن اُس دور کے مسلمانوں نے اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے کوتاہی نہیں کی، تاتاریوں تک اسلام پہنچایا، انہیں مسلمان کیا اور نتیجتاً مزید چھ سو برس دنیا پر حکمرانی کی۔ مگر آج کے مسلمان اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے وہ بن بیٹھے ہیں جس کا ذکر اوپر ہوا۔
مسلمانوں کی دعوتی غفلت دنیا میں ان کی ذلت اور رسوائی کی بنیادی وجہ ہے۔ جس دن انہوں نے دعوت دین کا کام شروع کر دیا، ان کے عروج کا زمانہ شروع ہوجائے گا۔