خیر کا راستہ ۔ ابویحییٰ
کوئی حکمران شیطان ہوتا ہے نہ فرشتہ ہوتا ہے۔ اپنی قوم کو یہ حقیقت سمجھاتے سمجھاتے یہ طالب علم جوانی سے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوچکا ہے، مگر لوگ سمجھ کر نہیں دیتے۔ ہم چھ دہائیوں کی حماقتوں کے باوجود بھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ ڈالر کی قیمت 3 روپے سے لے کر 280 تک پہنچ گئی، ملک دو لخت ہوگیا، ہمارا سوشل فیبرک تباہ ہوگیا، مگر ہم کچھ سمجھنے کو تیار نہیں۔
ہم دانشور قیادت پچھلی سات دہائیوں سے ایک ہی کام کر رہی ہے۔ ہر برائی حکمران وقت کے سر تھوپ دی جائے۔ اسے ابلیس ملعون ثابت کر دیا جائے۔ جب ہم یہ کر کے حکمران سے جان چھڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک تباہی کی مزید منازل طے کرچکا ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیا الحق، نواز شریف، بے نظیر، پرویز مشرف اور زرداری۔۔۔ اپنے اپنے لحاظ سے ہم نے ان سب کو شیطان ثابت کیا اور ان سے جان چھڑائی۔ مگر جب نیا حکمران آیا تو معلوم ہوا کہ عوام کے لیے ایک زیادہ بڑی مصیبت کھڑی ہوچکی تھی۔
حکمرانوں میں خرابیاں ہوتی ہیں۔ مگر قومیں حکمرانوں کی خرابیوں سے تباہ نہیں ہوتیں۔ قومیں اس فکری قیادت کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہیں جو جذباتیت، منفی انداز فکر اور ٹکراؤ کی سوچ پیدا کرتی ہے۔ جو اپنے احتساب کے بجائے ہر مسئلے کو دوسروں پر ڈالنے کا سبق سکھاتی ہے۔ جو ہر حکمران کو شیطان بنا کر باقی خرابیوں سے آنکھیں بند کرلیتی ہے۔
یہ فکری قیادت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے احکام کے بالکل برعکس قوم کی تربیت کر رہی ہے۔ ان احکام سے کتب حدیث بھری ہوئی ہیں۔ ہمارے اسلاف نے ان احکام پر عمل کیا۔ حکمرانوں پر تنقید ضرور کی، مگر اپنا رخ معاشرے کی اصلاح کی طرف کیے رکھا۔ یہی ہمیں کرنا ہے۔ صبر کے ساتھ، برداشت کے ساتھ۔ سارا خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے بیان کیے ہوئے اسی طریقے میں ہے۔ ہمیں اسی کو اپنانا ہوگا۔