کچھوا خرگوش کہانی: کچھ نئے پہلو ۔ ابویحییٰ
سب لوگوں کو بچپن میں سنی ہوئی کچھوے اور خرگوش کی کہانی ضرور یاد ہوتی ہے۔ اس کہانی کے مطابق کچھوے اور خرگوش میں دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے۔ دوڑ کے آغاز میں جب کہ کچھوا بالکل ابتدا ہی میں ہوتا ہے خرگوش اپنی تیز رفتاری کی بنا پر بہت آگے نکل جاتا ہے۔ مگر ہدف پر پہنچنے سے قبل خرگوش کو خیال آتا ہے کہ کچھوا تو ابھی بہت زیادہ پیچھے ہے، اس لیے اسے کچھ دیر درخت کے سائے میں لیٹ کر سَستا لینا چاہیے۔ لہٰذا وہ آرام کرنے لیٹتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ کچھوا بغیر رکے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ سوئے ہوئے خرگوش سے آگے نکل جاتا ہے اور پھر ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ جب خرگوش کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ دوڑ کر ہدف تک پہنچتا ہے تودیکھتا ہے کہ کھچوا وہاں پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باوجود یہ دوڑ ہار جاتا ہے۔
اس کہانی سے بچوں کو یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ خرگوش کی طرح انسان کو کبھی غیرضروری طور پر خود اعتمادی کا شکار نہیں ہونا چاہیے نہ کسی کی صلاحیت کو کم تر سمجھ کر عمل سے رکنا چاہیے۔ اسی طرح یہ سبق بھی اس کہانی میں ہے کہ مستقل مزاجی اور ہمت ایک بہت بڑ ی صفت ہے جس کا مظاہرہ کچھوے نے کیا۔
اس کہانی کی مزید تفصیلات بھی ہیں جو کم لوگوں کو معلوم ہیں۔ ان کی تفصیل اس طرح ہے کہ دوڑ ہارنے کے بعد خرگوش دوبارہ مقابلہ رکھتا ہے اور اس دفعہ بغیر رکے دوڑتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ ایک بڑے فرق سے کچھوے کو شکست دے دیتا ہے۔ اس سے یہ سبق ملا کہ اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ مستقل مزاجی جمع ہوجائے تو انسان ہمیشہ دوسروں سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ مگر ابھی یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کچھوا شکست کے بعد بہت افسردہ ہوجاتا ہے۔ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ دوڑ کے میدان میں وہ کبھی خرگوش سے نہیں جیت سکتا، مگر وہ مایوس ہونے کے بجائے غور و فکر کرتا اور ایک ایسا میدان دریافت کرتا ہے جہاں اس کی فتح یقینی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پھر خرگوش اس عزم کے ساتھ بھاگتا ہے کہ وہ ہدف سے پہلے ہرگز نہیں رکے گا۔ مگر دوڑ تے دوڑ تے اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ایک دریا آگیا ہے۔
وہ پریشان ہوکر دریا کے کنارے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ دریا کیسے عبور کیا جائے۔ بہت دیر گزر جاتی ہے اور آخرکار کچھوا آہستہ آہستہ وہاں پہنچتا ہے اور اطمینان کے ساتھ تیر کر دریا پار کرلیتا ہے اور پھر ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ یوں خرگوش کو مستقل مزاجی اور اعلیٰ صلاحیت کے باوجود شکست ہوجاتی ہے۔
سبق یہ نکلا کہ انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ غور و فکر کی صلاحیت کو استعمال کر کے اپنی کوئی ایسی خوبی، مخالف کی کوئی ایسی خامی اور حالات و ماحول کا کوئی ایسا مددگار عنصر تلاش کرنا چاہیے جو اسے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھا دے۔ اللہ تعالیٰ نے لازماً ایسی کوئی نہ کوئی چیز رکھی ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان اسے تلاش کر لے۔ تاہم یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ایک روز اس علاقے میں کچھ شکاری آجاتے ہیں۔ کچھوے اور خرگوش دونوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ خرگوش کے پیچھے شکاری اور آگے پانی ہوتا ہے جبکہ کچھوے کے لیے پانی تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ دونوں اپنے اختلافات ختم کر کے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ خرگوش کچھوے کو اپنے اوپر اٹھا کر دوڑتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دریا کے کنارے جاپہنچتا ہے۔ یہاں سے کچھوا اسے اپنے اوپر بٹھا کر دریا پار کرا دیتا ہے۔پھر خرگوش کچھوے کو اپنی کمر پر بٹھا لیتا ہے اور دوڑنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ دونوں خطرے کی زدسے نکل جاتے ہیں۔
یہ آخری حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ مل کر کام کرنا سب سے اچھا طریقہ ہے۔ اس میں سب کی جیت ہے۔ مگر اس کے لیے انسان کو اپنی انا اور بڑائی کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو شاید بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتیں، اس لیے بچہ بن کر کہانی کی شکل میں انہیں سمجھ لینا چاہیے۔