قیامت کی مثال ۔ ابویحییٰ
حاملہ خواتین کے بچوں کی صحت اور نشوونما کا جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹر الٹراساؤنڈ ٹیکنالوجی سے مدد لیتے ہیں۔ وہ اس عمل سے پیٹ کی اندھیری کوٹھری میں چھپے بچے کی جسامت، حرکات اور دیگر کئی اہم اور ضروری معلومات کا براہ راست مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ الٹراساؤنڈ کی اس ٹیکنالوجی میں مزید ترقی اس طرح ہوئی ہے کہ بچے کی نقل و حرکت اور جماہی اور مسکراہٹ جیسے دیگر اعمال کی سہہ جہتی کلر ریکارڈنگ (Three Dimensional Color Recording) کر کے والدین کو دی جاسکتی ہے۔ گویا اب خارجی دنیا میں رہنے والے لوگ اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کی اندھیری دنیا کا رنگین مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
سائنس کی یہ ترقی دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی وہ وقت آسکتا ہے کہ بچے کو اس دنیا میں آنے سے قبل خارج کی دنیا کے حقائق سے مطلع کیا جاسکے گا؟ بظاہر یہ ممکن نہیں۔ لیکن سائنس یہ کر بھی لے، تب بھی ماں کے پیٹ میں بچے کے حواس اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ خارج کی دنیا کے پیغامات سمجھ سکیں۔ تاہم فرض کرلیں کہ بچے کے حواس کو اس قابل کر دیا جائے کہ وہ انسانی دنیا کے پیغامات سمجھنے لگیں تب بھی اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خارجی دنیا کے حقائق کو اسی طرح سمجھ لے جس طرح ہم انسان سمجھتے ہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں گرچہ زندہ ہوتا ہے۔ وہ غذا لیتا، نشوونما پاتا اور زندگی کے دیگر بہت سے افعال پوری طرح سر انجام دے رہا ہوتا ہے، مگر خارج کی دنیا اس کے تجربات سے اتنی مختلف ہوتی ہے کہ وہ کبھی ماں کے پیٹ میں رہتے ہوئے اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ مثلاً خوراک ہی کو لے لیں۔ بچہ ماں کے پیٹ میں باقاعدہ خوراک لیتا ہے۔ مگر اس کی خوراک اور خارج میں پائی جانے والی خوراک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بچے کو خوراک ماں کے خون سے براہ راست ملتی ہے۔ جبکہ خارج میں انسان خوراک کے لیے منہ، دانتوں اور زبان کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ اعضا خوراک میں چھپے ان گنت ذائقوں کو محسوس کرتے اور انسان کو لذت کے ختم نہ ہونے والے خزانوں سے روشناس کراتے ہیں۔ پھل سبزی، دال، اناج، گوشت، مرغی اوردودھ دہی کو مرچ مصالحوں اور آگ برف سے ملا کر انسان ذائقوں کی جو لذیذ کائنات سجاتا ہے، اس کا ابلاغ کسی صورت اس معصوم بچے تک نہیں کیا جاسکتا جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ یہی بتایا جاسکتا ہے کہ نئی دنیا میں اسے ایک بہتر غذا ملے گی۔
ماں کے پیٹ کی دنیا اور خارج کی دنیا میں جو فرق پایا جاتا ہے، ویسا ہی فرق آج کی دنیا اور اُس دنیا میں پایا جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے جنت کی صورت میں قیامت کے بعد تخلیق کریں گے۔ اللہ تعالیٰ جنت کی اُس دنیا سے آج بھی واقف ہیں، مگر اِس دنیا کا انسان اُس دنیا کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ قرآن کریم میں بات سمجھانے کے لیے انسانوں کو موجودہ دنیا میں پائی جانے والی بہترین چیزوں کی مثال دے کر سمجھایا جاتا ہے۔ باغ، نہریں، سونا، چاندی اور ریشم وغیرہ اسی کی مثالیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنت میں بس یہی کچھ ہوگا۔ یہ جنت کی زندگی کا وہ آغاز ہے جسے آج کا انسان سمجھ سکتا ہے، وگرنہ اس دنیا کی نعمتوں کا کوئی تصور آج کا انسان نہیں کرسکتا۔ بالکل پیٹ میں موجود اس بچے کی طرح جو خارج کی دنیا کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ اسی لیے قران میں بیان کردہ نعمتوں کو ’نزل‘ یعنی ابتدائی مہمانی کا سامان کہا گیا ہے۔ جنت کی اصل نعمت اس ابتدائی ضیافت کے بعد دی جائے گی۔ جس طرح بچہ اس دنیا میں آنے کے بعد خون کی جگہ دودھ جیسی خوشگوار چیز بطور خوراک لیتا ہے اور اس ابتدائی سامان کے بعد پھر ساری زندگی لذیذ غذاؤں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
اہل جنت آنے والی دنیا میں، ختم نہ ہونے والی زندگی میں خدا کی لامحدود میزبانی، قدرت، صناعی اور انعام کا لطف اٹھائیں گے۔ وہ جوانی، صحت، طاقت، حسن اور اقتدار کی ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں نعمتوں کی کہکشاؤں کو تسخیر کرتے ہوئے اپنی ابدی زندگی گزاریں گے۔
مگر یہ جنت اور یہ بادشاہی صرف ان لوگوں کا مقدر ہے جو اس فانی دنیا میں ایمان اور اخلاق کی بظاہر مشکل مگر درحقیقت آسان شاہراہ اختیار کرلیں۔ جو لوگ ایک دفعہ یہ ہمت کرلیں آنے والی دنیا میں ان کی زندگی میں کوئی حزن نہیں آسکتا، کوئی غم نہیں آسکتا، کوئی مایوسی، پریشانی، افسردگی، محرومی، اندیشہ، دکھ، غم، الم اور پچھتاوا ان کے گھر کی دہلیز تک نہیں آسکتا۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے۔