کعبہ کی طرف منہ ۔ ابویحییٰ
قرآنِ مجید کی سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے جب تحویل قبلہ کا حکم نازل فرمایا تو بار بار اس بات کو دہرایا کہ تم اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرلو۔ یہ بات اس سلسلۂ کلام (آیت 144,149,150) میں پانچ دفعہ دہرائی گئی ہے۔ قرآنِ مجید کی اس قدر تاکید کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امت میں دیگر معاملات میں کچھ نہ کچھ جزوی نوعیت کے اختلاف رہے ہیں، مگر اس حکم کے بارے میں کوئی اختلاف موجود نہیں۔ ہر زمانے کے تمام مسلمان خانہ کعبہ کی سمت ہی رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے ہیں۔ آج بھی حرم پاک میں لوگ جب نماز ادا کرتے ہیں تو ہرطرح کے جزوی اختلاف کے باوجود ان سب کا رخ خانہ کعبہ کی سمت ہی ہوتا ہے۔
تاہم اس حکم پر تدبر کے ساتھ جب نظر کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اصرار کا سبب یہ ہے کہ یہاں حرم پاک دراصل اللہ تعالیٰ کے قائم مقام ہے۔ بندے کا رخ اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہونا چاہیے۔ مگر چونکہ وہ مقام اور جسم کی ہر قسم کی قید سے بلند اور پاک ہیں، اس لیے بیت اللہ الحرام کو علامتی طور پر مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا گیا جس کی طرف رخ کرکے وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ تاہم اس اصرار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندۂ مومن کو اپنی ہر بندگی اور اپنی کل زندگی میں اپنا رخ اپنے رب کی طرف ہی رکھنا چاہیے۔ اس کی ہر عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہونی چاہیے۔ اس کی زندگی کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ہستی ہونی چاہیے۔ زندگی کی ہر اونچ نیچ، نشیب و فراز، سرد و گرم اور خوشی و غم کے موقع پر اسے اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
اسے نعمت ملے تو وہ اللہ کا شکر کرے۔ مشکل پیش آئے تو وہ اللہ سے مدد مانگے۔ آسانی ملے تو اللہ کا کرم سمجھے۔ سختی آئے تو اللہ کی آزمائش جانے۔ یہ رویہ جس شخص نے اختیار کیا دراصل وہی ہے جس نے رب کے حکم کو درست سمجھا اور اس پر پوری طرح عمل کیا۔