جنگ اور امن کی قیمت ۔ ابویحییٰ
فرانس کے ایک سیاستدان نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے کہا تھا:
War is too serious a matter to entrust to military men
مفہوم یہ ہے کہ جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ فوجیوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایک جرمن فوجی یعنی ہٹلر سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آگیا۔ جس کے بعد اس نے پوری دنیا کو اس جنگ میں جھونک دیا جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ کسی فوجی کے اقتدار میں آنے سے کہیں زیادہ خطرناک کسی انتہا پسند کا اقتدار میں آنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں پچھلے کافی عرصے سے انتہا پسند بی جے پی اقتدار میں ہے۔ 2019ء کی دوسری سہ ماہی میں ہندوستان میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل نومبر 2018ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی کو متعدد اہم ریاستوں میں برسوں سے مردہ کانگریس کے ہاتھوں شکست اٹھانی پڑی۔ اس کے بعد یہ متوقع تھا کہ دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی بڑا واقعہ ہندوستان یا کشمیر میں کہیں ہوگا اور پھر انڈیا کی طرف سے وہ فضا بنا دی جائے گی جس کے بارے میں ایک ہندوستانی شاعر نے کہا ہے۔
سرحدوں پر تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
اس پس منظر میں چودہ فروری کے دن پلوامہ، مقبوضہ کشمیر میں فوجیوں کے ایک قافلے پر حملہ ہوا جس میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے۔جس کے بعد صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں ایک جنگی فضا بنا دی گئی ہے۔ اس جنگی جنون کا اصل مقصد بظاہر الیکشن میں کامیابی ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کی باتیں کرنا آسان ہے، جنگ کرنا نہیں۔
تاہم جب انتہا پسند لوگ حکومت میں ہوں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے لوگوں میں جنگی جنون پیدا کرنے کے بعد اسے ٹھنڈا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس جنون میں محدود فوجی کارروائی کبھی بھی کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ایسا ہوا تو غربت میں پسے ہوئے برصغیر کو شمشان گھاٹ میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
یہ وہ چیز ہے جسے سرحد کے دونوں طرف موجود انتہا پسند نہیں سمجھتے۔ برصغیر نے ابھی تک صرف محدود سرحدی جنگیں دیکھی ہیں۔ ابھی یہاں کے لوگوں نے شہروں کو قبرستان میں بدلتے اس طرح نہیں دیکھا جس طرح پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں یورپ یا جاپان بدلا تھا۔ اس لیے یہاں کے لوگ موت اور جنگوں کو بڑا گلیمرائز کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کرکٹ کے کھیل کی طرح ہے جس میں بڑا مزہ آتا ہے اور جوش و جذبے کو تسکین ملتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ مکمل بربادی کا نام ہے۔ یہ جان، مال اور آبرو کے لٹنے کا نام ہے۔ یہ شہروں کے کھنڈر بن جانے، گھروں کے ملبہ بن جانے، لاشوں کے قیمہ بن جانے کا نام ہے۔ یہ بیٹیوں کے سرعام بے آبرو کیے جانے، بیٹوں کی لاشیں اٹھانے اور ماؤں کی آسمان تک بلند ہوتی چیخوں کا نام ہے۔
انتہا پسند سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے لیے جنگ کھیل ہوتی ہے۔ وہ خود آرام سے رہتے ہیں اور(Collateral Damage) کے نام پر دوسروں کی زندگی برباد کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب سوشل میڈیا نے عام لوگوں کو آواز دے دی ہے تو ان پر فرض ہے کہ ایسی تباہی سے پہلے آگے آئیں اور امن کی آواز بلند کریں چاہے اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امن کی آخری قیمت جنگ کی ابتدائی قیمت سے بہت کم ہوتی ہے۔