وہ جنھیں وطن کو لوٹنا ہے ۔ ابویحییٰ
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں پرکشش تنخوا ہوں اور اجرتوں پر کام کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 14 سے 15 لاکھ ہے جن میں سے 9 لاکھ افراد صرف سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ دنیا کے دوسرے خطوں مثلاً امریکہ، کینیڈا، مشرقِ بعید، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے برعکس ان لوگوں کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ سالہا سال ملک سے باہر رہنے کے باوجود ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل پاکستان ہی سے وابستہ رہتا ہے اور دھرتی سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹتا۔ اس کا سبب خلیجی ممالک کا وہ قانون ہے جس کے تحت کسی غیرملکی کے لیے عملی طور پر وہاں کی شہریت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہاں گزار دینے والے غیرملکیوں کا مقدر بھی یہی ہے کہ آخرکار انہیں اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔
خلیج میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کو ایک دوسری صورتِ حال سے بھی واسطہ پیش آتا ہے۔ وہ یہ کہ ان ممالک میں کسی فرد کی مدتِ قیام کا تمام تر انحصار اس شخص یا کمپنی پر ہوتا ہے۔ جس کے ویزہ پر وہ یہاں ملازمت کے لیے آیا ہوتا ہے۔ اسے یہاں کی اصطلاح میں "کفیل” کہتے ہیں۔ جب تک کفیل کی مرضی ہوگی وہ آدمی یہاں کام کرتا رہے گا اور جب وہ چاہے گا اسے نہ صرف ملازمت سے فارغ کر دے گا، بلکہ فورا ً ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کر دے گا۔ یہ کوئی انفرادی سطح پر پیش آنے والا معاملہ نہیں، بلکہ یہ حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے تحت وہ سرکاری اور نجی شعبوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے ہاں سے غیرملکیوں کو نکال کر زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کریں۔
ان مسائل کی بناء پر یہاں کام کرنے والوں میں ایک خاص قسم کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے، جس کے باعث انہیں ہمیشہ احساس رہتا ہے کہ یہ جگہ ان کے مستقل قیام کی نہیں ہے اور یہ کہ ایک روز انہیں بہرحال اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔ ان چیزوں سے ان کے اوپر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک اثر ان کی زندگی پر یہ پڑتا ہے کہ یہ اس بات کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جب وہ اپنے وطن کو لوٹ کر جائیں تو خالی ہاتھ نہ ہوں، بلکہ ان کے پاس کافی سرمایہ بچت کی صورت میں موجود ہو جس سے وہ اپنے مستقل وطن میں بہتر زندگی گذار سکیں۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی کمائی کا بڑا حصہ اپنے ملک میں انویسٹ کرتے ہیں۔ بعض لوگ بچت کی کسی اسکیم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بعض زمین و جائیداد میں رقم لگاتے ہیں۔ بعض شیئرز خرید لیتے ہیں اور بعض اپنا پیسہ فارن کرنسی کی شکل میں محفوظ رکھتے ہیں۔
دوسرا اثر جو ان کے طرزِ زندگی پر پڑتا ہے اسے بجا طور پر "سیکنڈ ہینڈ” زندگی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو ان لوگوں کو اپنے مستقبل کے لیے کچھ رقم پس انداز کرنی ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے انہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں ان کا تمام تر ساز و سامان دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ چنانچہ وہ ہر معاملے میں سیکنڈ ہینڈ، گزارے کے قابل اور سستی چیز کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ جاتے وقت اگر کسی چیز کو پھینکنا بھی پڑے تو زیادہ دکھ نہ ہو۔ ورنہ قیمتی سامان ایسے وقت میں کوڑیوں کے مول ہی بکتا ہے۔ چنانچہ یہاں رہنے والے کم و بیش تمام لوگوں کا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے کہ وہ فرسٹ کلاس تنخواہیں لے کر سیکنڈ کلاس زندگی گذارتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ جس طرح کی پرآسائش زندگی گذار سکتے ہیں، اس سے کم درجے کی زندگی اختیاری طور پر گذارتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کی زندگی ان لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں یقین ہے کہ ان کا اصلی وطن جنت ہے۔ اس دنیا میں تو وہ صرف کمانے کے لیے آئے ہیں اور اس کمائی کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے اصل وطن یعنی جنت کی زمین میں انویسٹ کریں، خدا کی قرضِ حسنہ کی اسکیم میں لگائیں، اللہ کی رحمت کے شیئرز خریدیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی فارن کرنسی محفوظ رکھیں۔ غرض یہ کہ وہ اپنی تمامتر صلاحیتوں اور بہترین مساعی کے ساتھ حشر کے بازار میں سرمایہ کاری کریں تاکہ کل جب اپنے ‘وطن’ کو لوٹیں تو کوئی پچھتاوا نہ ہو۔
وہ لوگ جو دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فرسٹ کلاس زندگی گذار سکتے ہوں، کیوں سیکنڈ کلاس زندگی کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس لیے کہ انہیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کے ویزے کی مدت کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے۔ اگر ان کی پونجی اس دنیا کے سامانِ عیش و عشرت ہی میں صرف ہوگئی تو اگلی دنیا میں ان کا کیا بنے گا۔ ان کے عالی شان بنگلے وارثوں کے تصرف میں آجائیں گے، ان کی شان دار گاڑیاں دوسروں کے استعمال میں آجائیں گی، ان کے بڑے بڑے کارخانے دوسروں کے حصے میں آجائیں گے۔ مرنے والوں کو تو اپنے ساز و سامان میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملا کرتی۔ سو جب سب کچھ چھوڑنا ہی ٹھیرا تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خراب چیز چھوڑ کر جائے تاکہ دکھ بھی کم ہو، ورنہ اپنے خون پسینے کی کمائی کو یوں اکارت جاتا دیکھ کر ان کا جی بہت کڑھے گا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص "خلیج” میں کام کرنے والا ایسا ’’غیرملکی‘‘ ہے جسے خوش قسمتی سے اپنا مستقبل سنوارنے کا ایک موقع مل گیا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کچھ بچت نہیں کی تو اپنے "وطن ” کو لوٹتے وقت سوائے حسرت و یاس کے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا۔
وہ جنھیں وطن کو لوٹنا ہے، انہیں اس بارے میں کچھ سوچنا چاہیئے۔ وہ جنھیں وطن کو لوٹنا ہے، انہیں اس بارے میں کچھ کرنا چاہیئے۔