جاپان اور پاکستان ۔ ابویحییٰ
جاپان دنیا کی بہترین گاڑیاں بنانے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ٹویوٹا، ہنڈا اور دیگر کئی جاپانی برانڈز کی گاڑیاں دنیا کے متعدد ممالک میں پسند کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان کی نئی ہی نہیں بلکہ پرانی گاڑیاں بھی دنیا کے کئی ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ جاپان میں معیار کی پابندی اور قوانین کی سختی کی وجہ سے پرانی گاڑی رکھنا اور پرانی گاڑی کو ٹھکانے لگانا ایک بہت مہنگا اور مشکل کام ہے۔ چنانچہ جاپانیوں نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ اپنی تین سے چھ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیاں آکشن یا نیلام میںبیچ کر نئی گاڑیاں لے لیتے ہیں۔ نیلام گھر سے یہ پرانی گاڑیاں دنیا کے کئی ممالک، بشمول پاکستان، کے لوگ خرید کر اپنے ملک منگا لیتے ہیں۔ یوں جاپانیوں کی پرانی گاڑیاں ان پر بوجھ بننے کے بجائے اچھے پیسوں میں بک جاتی ہیں اور پاکستان جیسے غریب ممالک کے لوگوں کو بہت اعلیٰ کوالٹی کی گاڑیاں بہت بھاری ڈیوٹی کے باوجود نسبتاً بہتر قیمت پر مل جاتی ہیں۔
جاپان کی یہ پرانی گاڑیاں کوالٹی اور جدت کے لحاظ سے پاکستان میں بننے والی انھی کمپنیوں جیسے ٹویوٹا اور ہنڈا وغیرہ کی نئی گاڑیوں سے بھی بہتر ہوتی ہیں۔ اس لیے لوگ انھیں شوق سے خریدتے ہیں۔ نہ صرف ان کا معیار بلکہ ان میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی بھی مقامی گاڑیوں سے بہت بہتر ہوتی ہے۔ ہنڈا، سوزوکی یا ٹویوٹا کمپنی کی پرانی جاپانی گاڑی نئی مقامی گاڑی سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتی ہے۔ بعض ٹیکنالوجی تو ایسی ہے جو مقامی طور پر دستیاب ہی نہیں۔ جیسے بجلی سے چلنے والی ماحول دوست گاڑیاں جو بہت کم پٹرول کھاتی ہیں، مقامی طور پر دستیاب ہی نہیں۔ تاہم اس طرح کی پرانی چیزوں کی ایک قیمت ہے۔ وہ یہ کہ پرانی گاڑیاں رفتہ رفتہ ماحول کو تباہ اور سڑکوں پر حادثات کو جنم دینے کا باعث بن جاتی ہیں۔
یہ فرق صرف دو قسم کی گاڑیوں ہی کا نہیں بلکہ دو قوموں کا بھی فرق ہے۔ ایک قوم ہے جہاں معیار سب سے اہم ہوتا ہے۔ جہاں ماحولیاتی تحفظ اہم ہے۔ جہاں انسانی جان کا تحفظ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ دوسری قوم ہے جہاں منافع سب سے اہم ہے۔ جہاں ہر قانون پیسے اور طاقت کے زور پر بالائے طاق رکھا جاسکتا ہے۔ جہاں انسانی جان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
دوقوموں کے درمیان یہ فرق کسی سازش نے پیدا نہیں کیا ہے۔ دو قوموں کے درمیان یہ فرق ان کی لیڈرشپ نے پیدا کیا ہے۔ جاپان کی لیڈر شپ نے دوسری جنگ عظیم کی تباہی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ جنگ میں بے پناہ اخراجات کرکے بھی آخرکار آپ تباہ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ تعلیم پر خرچ کرکے آپ ترقی میں دنیا بھر سے آگے نکل جاتے ہیں۔ جاپان کی لیڈر شپ نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے بدترین دشمن امریکہ سے شکست کھانے کے بعد قوم کو نفرت کا درس نہیں دیا۔ بلکہ تعمیر کی سوچ دی۔ انھیں یہ سکھایا کہ نفرت اور دشمنی سے آپ دوسروں سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ دوسروں سے آگے بڑھنے کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج پاکستانی قوم تباہی کے کنارے پر آکھڑی ہوئی ہے۔ اس کاسبب کسی دشمن کی کوئی سازش نہیں بلکہ ہمارے اندر پھیلی ہوئی منفی سوچ ہے۔ یہ سوچ کبھی ہمیں اپنا احتساب نہیں کرنے دیتی۔ یہ سوچ ہمیں اپنے سطحی جذبات سے اوپر نہیں اٹھنے دیتی۔ یہ سوچ ہر مسئلے کی جڑ دوسروں کو سمجھتی ہے اور اپنی اصلاح کے تصور ہی سے خالی ہے۔ اس سوچ کو آپ اپنی مجلسوں، پرنٹ اور الیکٹرونک اور سوشل میڈیا ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔
اگر ہمیں اپنی قوم کی تقدیر بدلنی ہے تو ہمیں اس منفی سوچ سے نجات پانا ہوگی جو ہر چیز کا الزام دوسروں کو دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔ جو اپنی آنکھ کا شہتیر بھول کر دوسروں کی آنکھ کا تنکا ڈھونڈنے میں مصروف رہتی ہے۔ جو خود چھلنی کی طرح سوراخ دار ہوکر سوئی سے شکایت کرتی ہے کہ اس میں سوراخ ہے۔ اپنا احتساب اور اپنی تعمیر۔ یہی دنیا میں ترقی کا راستہ ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔