جلوۂ سحر کی ایمانی رمزیں ۔ مولانا سید متین احمد
ہماری تیسری کلاس کی اردو کی کتاب میں اسماعیل میرٹھی کی ایک نظم ہوتی تھی "صبح کی آمد” جس کا آغاز یوں ہوتا تھا:
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں، اجالا زمانے میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں، پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
جب زندگی سادہ ہوتی تھی (اور دیہات کی زندگی میں بڑی حد تک یہ صورتِ حال اب بھی قائم ہے) تو لوگ رات کو عشا کے بعد جلد سو جاتے اور صبح منہ اندھیرے اٹھتے۔ گھر میں قرآن کی تلاوت ہوتی اور فطری انداز میں زندگی کا آغاز ہوتا۔ صبح کا منظر خاص طور پر دیہات کی زندگی میں بہت ہی روح پرور اور ایمانی اسباق لیے روز حاضر ہوتا ہے۔ مشرقی سمت سے اٹھتا نور کا ہالہ، برگد کے درختوں پر چڑیوں کا شور، ٹمٹماتے ہوئے اخترِ صبح کا پیامِ آخریں ۔
ناصر عباس نیر نے شام کے بارے میں جو کہا ہے، وہ صبح کے بارے میں بھی بالکل درست ہے کہ وہ ایک مصحف ہے جس کا پیغام سمجھ میں نہ بھی آئے، تب بھی اس کی زیارت ایک برکت و سعادت سے کم نہیں۔ جوش ملیح آبادی نے ملیح آباد کی حسین صبح کو دیکھ کر کہا تھا:
ہم ایسے اہلِ نظر کو قبولِ حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
قرآنِ کریم کائنات میں بچھے ایمانی دسترخوان کی طرف ہمیں جابجا متوجہ کرتا ہے۔ اس دسترخوان کی اعلیٰ ترین سوغاتوں کی فہرست شمار کی جائے تو ان میں صبح کی سوغات شاید سرفہرست ہوگی، لیکن آج ہمارا طرزِ زندگی اتنا مشینی ہوچکا ہے اور ہم گلوبل دنیا میں انتہائی خبردار رہ کر بھی بے خبری کی انتہاؤں پر جی رہے ہیں۔ ٹی وی، انٹرنیٹ، کاروبار اور کئی ہنگامہ خیز مشاغل کے بعد ہم رات گئے اس وقت بستر سے لگتے ہیں کہ جب ہنگامِ صباح میں بلالِ حبشی کا وارث اپنی ناکام کوشش سے بیدار کرتا ہے تو ہم نندیا پور کی سیر میں بدمست ہوتے ہیں۔ بازار صبح دیر سے کھلتے ہیں اور کاروبارِ زندگی تب جوبن پر آتا ہے جب سورج ڈھلنے کی تیاریوں میں ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان کو کہاں فرصت ہے کہ وہ خاموش کائنات میں پھیلے نغمے سن سکے، خداوندِ قدوس کا بے حجاب نظارہ جلوۂ سحر کی رو پہلی کرنوں میں کرے۔ انسان کے من کی دنیا جب تک اس خاموش کتاب سے درس نہیں پاتی، ممکن نہیں کہ وہ قرآن سے سوائے الفاظ کے سیکھنے کے کچھ سیکھ سکے۔