اسلام اور دنیا داری ۔ ابویحییٰ
اس شمارے میں معروف کالم نگار جاوید چوہدری صاحب کا ایک فکر انگیز مضمون شائع کیا جا رہا ہے اس میں وہ سنگاپور کے آنجہانی وزیراعظم لی کو آن یو اور وزیر اعظم نواز شریف کی ایک ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ لی کو آن یو کے نزدیک پاکستان سنگاپور جیسا ترقی یافتہ اور صاف ستھرا اس لیے نہیں بن سکتا کہ اہل پاکستان اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں اور آخرت کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس دنیا پر توجہ نہیں دیتے۔ چنانچہ جو لوگ اس دنیا پر یقین ہی نہیں رکھتے وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے۔
ہمیں نہیں خبر کہ یہ بات کس حد تک درست نقل ہوئی ہے، مگر بہت سے لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اسلام میں صرف آخرت پر زور دیا جاتا اور دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ خود مسلمانوں میں سے بہت سے لوگوں کی چونکہ یہی رائے ہے اس لیے اس پر ہمیں تبصرہ کرنا پڑ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آخرت کی زندگی پر متنبہ کرنا انبیا علیھم السلام کا بنیادی کام تھا۔ اسی پہلو سے ان کو بشیر اور نذیر یعنی جنت کی خوشخبری دینے والا اور جہنم سے ہشیار کرنے والا کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اکثر لوگ آخرت سے غافل ہوکر زندہ رہتے ہیں، اسی لیے قرآن مجید میں بڑی شدت اور تفصیل کے ساتھ آخرت کے احوال کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آخرت کی نعمتوں اور وہاں کے عذاب کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ تاہم کیا ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دین اسلام دنیا کی ترقی اور اس کی خوبصورتی اور جمالیات سے لطف اندوز ہونے سے منع کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب قطعیت کے ساتھ نفی میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے قرآن مجید وہاں کھڑا ہے جس کا کوئی مذہب تصور نہیں کرسکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ اور پیو، اور اسراف نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اے رسول ان سے کہو، کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دی ہیں۔ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان کے لیے ہیں، اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں۔ (الاعراف 7 :32-33)
ان آیات کو بار بار پڑھیے۔ اللہ تعالیٰ صاف بتا رہے ہیں کہ زینت، لباس، کھانے اور پینے میں لوگوں کو ہر طرح سے آزادی حاصل ہے۔ عام طور پر اہل مذہب جمالیات اور خوبصورتی سے دور رہنے کو نیکی کی معراج سمجھتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ صاف کہتے ہیں کہ دنیا کی ساری خوبصورتیاں انہوں نے اہل ایمان کے لیے تخلیق کی ہیں۔ مگر دنیا میں آزمائش کی بنا پر یہ نافرمانوں کو بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن قیامت کے بعد کی زندگی میں تو یہ خالص اہل ایمان کے لیے کر دی جائیں گی۔
جس مذہب کی تعلیمات یہ ہوں وہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں ایک اچھی زندگی گزارنے کا مخالف ہو۔ بات صرف یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے بعض بیانات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی زندگی کے بعض پہلوؤں کو درست طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر لوگوں کو کچھ غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ ذیل میں ہم ان دونوں کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و حدیث میں بہت سے مقامات پر دنیا کی زندگی کو دھوکہ اور متاع قلیل قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ان جیسے تمام مقامات پر ہدف تنقید وہ لوگ ہیں جو آخرت کی زندگی کو جھٹلا کر یا فراموش کر کے دنیا کی فوری ملنے والی نعمتوں پر مر مٹتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک انتہائی برا رویہ ہے جو ہر قسم کے ایمان و اخلاق کے ہر تقاضے کو پامال کر دیتا ہے۔ اس پر تنقید بھی ہونی چاہیے اور قرآن و حدیث میں تنقید آئی بھی ہے۔ مگر وہ لوگ جو آخرت کے بھی طلبگار ہیں اور اس کے لیے اچھا عمل کرتے ہیں، وہ جب حسنات دنیا کے طالب ہوتے ہیں تو بلاشبہ یہ رویہ قابل اعتراض نہیں۔ قرآن مجید نے ایک مقام پر اس کا بڑا خوبصورت تقابل کر کے دونوں رویوں کا فرق واضح کر دیا ہے: ’’اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے ربّ، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔‘‘ ( البقرہ 2: 201-202)
یہ آیات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دنیا اور اس کی بھلائیاں علی الاطلاق قابل مذمت نہیں بلکہ آخرت فراموشی کی وجہ سے ہیں۔ اگر آخرت کا تصور راسخ ہے تو پھر قرآن واضح ہے کہ تمام نعمتیں تو پیدا ہی اہل ایمان کے لیے کی گئی ہیں۔ ان کا استعمال کیسے غلط ہوگیا۔
جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی زندگی کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ ان کی درویشانہ زندگی کی جو تفصیلات بیان ہوتی ہیں، وہ اس وقت کی ہیں جب وہ حکمران کے منصب پر پہنچ چکے تھے۔ ورنہ اس سے قبل یہ لوگ تجارت کرتے اور ایک اچھی زندگی گزارتے تھے۔ حضرت علی کے علاوہ باقی لوگ تو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل بہت بڑے تاجر تھے۔ حکمرانوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا اسوہ حسنہ یہی ہے کہ رعایا کے غریب ترین افراد کی سطح پر زندگی گزاریں تاکہ عوام کے دکھ درد کبھی ان کی نگاہ سے اوجھل نہ ہوں۔ یہ عام لوگوں کے لیے کوئی ضابطہ قاعدہ نہیں ہے۔