اِسی میں زندگی ہے ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں مسلمان حکمرانوں پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ بے گناہ قتل ہونے والوں کا قصاص لیں۔ قاتلوں کو بغیر کسی رعایت کے سزائے موت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو بیان کرتے ہوئے وہ جملہ ارشاد فرمایا ہے ہے جو کسی اور حکم کو دیتے ہوئے نہیں کہا یعنی ’’اے عقل والو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرہ 179:2)۔
بدقسمتی سے دور جدید میں کچھ ’’عقل‘‘ والوں نے یہ منطق تراشی ہے کہ قاتلوں کو سزائے موت دینا غلط ہے۔ یہ سوچ اب دنیا میں اتنی مقبول ہے کہ دنیا کے 103 ممالک قانونی طور پر اور 50 ممالک عملی طور پر سزائے موت کو ختم کرچکے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا تھا جہاں عملی طور پر سزائے موت پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ اور سن 2008 سے 2014 تک سزائے موت کے کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔ مگر دہشت گردی کے ایک بہت بڑے واقعے کے بعد پچھلے کچھ عرصے سے اس پر سے پابندی ہٹالی گئی ہے۔
بدقسمتی سے کچھ حلقے ایک دفعہ پھر سزائے موت پر پابندی کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔ پہلے بھی پاکستان میں سزائے موت کے خلاف ایک فضا موجود ہے۔ مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ نے 1988 میں پہلی دفعہ اقتدار میں آنے کے بعد سزائے موت کے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔ ان میں معصوم سسٹر ٹرپل مرڈر کیس کے مجرم بھی شامل تھے۔ یہ اس زمانے کا مشہور کیس تھا جس میں کراچی کی ایک پرُ رونق سڑ ک پر معصوم نامی ایک صاحب کو قتل کر کے ان کی دو جوان بیٹیوں کو اغوا کر لیا گیا اور کئی دن تک ان لڑکیوں کو گینگ ریپ اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ مگر یہ مجرم بھی رہائی پا کر مزے سے جینے لگے۔
یہی ذہن آج ایک دفعہ پھر فعال ہوچکا ہے۔ اس وقت تو دہشت گردی کے خلاف ایک فضا موجود ہے اور ہزاروں بے گناہ مرد و زن اور معصوم بچوں کی جانوں کی قربانی کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد بحال ہوا ہے، مگر زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ یورپی ممالک کے فنڈز پر چلنے والی این جی اوز اس سزا کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی۔ بہانہ یہ ہوگا کہ ہمارا نظام عدل انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہے تو نظام عدل کو بہتر بنانے کی مہم چلانی چاہیے۔ ورنہ یہ استدلال تو ہر قسم کی سزا کے خلاف پیش کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ نظام عدل ٹھیک نہیں اس لیے کسی جرم کی سزا بھی نہیں ملنی چاہیے۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا بودا استدلال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزائے موت کسی مقتول کی زندگی تو نہیں لوٹا سکتی، مگر ان کے لواحقین کے سینے کو ضرور ٹھنڈا کرتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کچھ مجرموں کو پھانسی دے کر باقی معاشرے کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر کسی کی جان لی گئی تو بدلے میں اپنی جان دینی پڑے گی۔ انسان کو سب سے بڑھ کر اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ چنانچہ قتل کا رجحان رکھنے والے ہر شخص کو یہ اندیشہ رہے گا کہ اگر اس نے کسی کی جان لی تو پورا معاشرہ اس کی جان کے درپے ہوجائے گا۔ مگر سزائے موت کے خاتمے کی سوچ دراصل معاشرے کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تم جتنے لوگوں کی چاہے جان لو، اس کے بعد تم اطمینان سے اپنی زندگی کے دن پورے کرو گے۔ بہت ہوا تو آٹھ دس سال کی سزا کاٹ کر دوبارہ معمولات زندگی میں مصروف ہوجاؤ گے۔
انسانی نفسیات کو اللہ تعالیٰ سے بہتر کوئی جان سکتا ہے؟ مغرب کے سماجی ماہرین اس معاملے میں ہر اعتبار سے غلطی پر ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں مغربی ماہرین کی پیروی کرنی ہے یا اللہ تعالیٰ کے احکام کی۔ اگر ہم اللہ کے احکام کی پیروری نہیں کریں گے تو بلاشبہ اپنے معاشرے کو تباہی و بربادی کا شکار بنا دیں گے۔