اسی رمضان میں ۔ ابویحییٰ
’’آپ میں سے ہر شخص کو روزہ رکھنے کا تجربہ تو ہوگا۔ یہ بتائیے کہ روزہ توڑنے کا تجربہ کتنے لوگوں کو ہوا ہے؟‘‘۔ عارف کا یہ سوال لوگوں کے لیے قطعاً غیر متوقع تھا۔ رمضان سے قبل احباب کے ساتھ عارف کی یہ آخری مجلس تھی جس میں لوگ رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے تھے۔ مگر جو سوال ان سے پوچھا گیا تو اس کا رمضان کی فضیلت سے کوئی تعلق کسی کے سمجھ میں نہیں آیا۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر ایک صاحب نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور بولے:’’جی مجھے ایک دفعہ رمضان میں روزہ توڑنا پڑا تھا۔‘‘ عارف نے کہا: ’’ذرا تفصیل سے بتائیے کہ کن حالات میں آپ کو روزہ توڑنا پڑا تھا۔‘‘
اب ان صاحب نے تفصیل بیان کرنا شروع کی: ’’دراصل اس روز میری طبعیت خراب تھی۔ مگر میں نے ہمت کر کے روزہ رکھ لیا۔ دن بھر میں نے ہمت کیے رکھی لیکن روزہ کھولنے سے آدھ گھنٹے قبل میری حالت غیر ہونے لگی۔ جب مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں گا تو میں نے روزہ توڑ دیا۔‘‘
’’کیا عام حالت میں آپ روزہ توڑنے کا سوچ سکتے ہیں؟‘‘، عارف نے ان صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے فوراً جواب دیا: ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک دم میں دم ہے کوئی مسلمان اس کا تصور نہیں کرسکتا۔‘‘
وہ صاحب خاموش ہوئے تو عارف نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا: ’’اگر آپ نے روزہ رکھ کر روزے کو نہیں سمجھا تو روزہ توڑنے کی کیفیت کا سن کر روزہ کو سمجھ لیں۔ روزہ ناقابل شکست عزم کے سہارے رکھا جاتا ہے۔ بھوک، پیاس، اذیت، گرمی، خواہش، وقت کی طوالت جیسی مضبوط چیزیں روزہ کی حالت میں انسانی عزم کے سامنے پسپا ہو جاتی ہیں۔ انسان ان چیزوں کے سامنے ڈٹا رہتا ہے یہاں تک کہ افطار کا وقت آجائے یا پھر انسان کا جسم اس کا ساتھ چھوڑ دے۔‘‘
عارف ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر گویا ہوئے:
’’یہی روزہ ہے۔ عزم انسانی کا تعارف۔ ناقابل شکست عزم جو ہر منہ زور جذبے کو نکیل ڈال کر انسان کے قدموں میں لا ڈالتا ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان جذبوں کا غلام بن کر شیطان کا بندہ بن جاتا ہے۔ جب ہوس کی بھوک، حرص کی تونس، لالچ کی پیاس، حرام کی چاٹ، گناہ کی لذت، معصیت کا ذائقہ انسان کا روزہ اطاعت توڑنا چاہیں یا پھر انسان کی عمر بھر کی ریاضت بہکی ہوئی نظروں، ڈگمگاتے قدموں، بے لگام خواہشوں اور بدلحاظ رویوں کی نذر ہونے لگے تو یہ عزم انسانی ہی ہے جو ان اٹھتے طوفانوں کو روک دیتا ہے۔ شیطان خواہش کے پھندوں میں اسے الجھاتا ہے مگر بندہ مومن پورا زور لگا کر خود کو ہر گرفت سے چُھڑا لے جاتا ہے۔ نفس جذبات کے جال میں اسے جکڑتا ہے، مگر مومن کا عزم، صبر کی تلوار سے ہر جال کو کاٹ ڈالتا ہے۔ عزم انسانی ہی روزہ کی اساس ہے جس کا مظاہرہ ہم میں سے ہر شخص روزہ رکھ کر کرتا ہے۔‘‘
صاحب معرفت کی آواز تھی یا آسمان معرفت کی برستی برسات۔ حاضرین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ لوگ سنتے رہے اور وہ بولتے رہے۔
’’جس شخص نے اپنے روزے سے اپنے اندر یہ عزم زندگی بھر کے لیے پیدا کرلیا، اس کا روزہ لاریب اسے جنت تک لے جائے گا۔ جس نے یہ نہیں کیا وہ اگلے رمضان کا انتظار کرے۔ کیونکہ اس نے ابھی تک روزہ رکھ کر اس چیز کو نہیں پایا جس کے لیے روزہ رکھوایا گیا تھا۔‘‘
عارف کی بات ختم ہوگئی۔ مگر رمضان کا اصل درس حاضرین تک پہنچا گئی۔ انہیں روزہ رکھنا تھا۔ اسی رمضان میں۔ انہیں جنت کو پانا تھا۔ اسی رمضان میں۔