انتہا پسندی اور حق اختلاف ۔ ابویحییٰ
انتہا پسندی کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ نقطہ اعتدال سے ہٹ کر ایک انتہائی راستے کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ بات کسی درجے میں درست ہے، مگر انتہا پسندی کو ایک مسئلہ بنا دینے والی اصل چیز یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگ دوسروں کا حق اختلاف سلب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ایسے لوگ کسی معاملے میں ایک انتہائی رائے قائم ہی نہیں کرتے بلکہ خود کو مکمل حق اور دوسروں کو مکمل باطل قرار دینے کی بھی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ ان کے نقطہ نظر کے علاوہ معاشرے میں کوئی نقطہ نظر باقی نہ رہے۔ کوئی اختلاف رائے کرے تو اس کے خلاف نکتہ آفرینی، جھوٹا پروپیگنڈا، الزام و بہتان کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔
یہی وہ انتہا پسندی ہے جو فرقہ واریت اورعلمی جمود پیدا کرتی ہے ۔ یہی انتہا پسندی آگے بڑھتی ہے اور تکفیر اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کر لیتی ہے۔ آپ کسی بھی فرقہ پرست یا دہشت گردوں کے کسی بھی حمایتی کی کوئی بھی تحریر پڑھ لیں یا تقریر سن لیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ لوگ خود کو آخری حق اور دوسروں کو باطل محض سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے سے اگر دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور انتہا پسندی کو ختم کرنا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے۔ لوگوں کا حق اختلاف تسلیم کیا جائے۔ انسانوں کو اپنے سے مختلف نقطہ نظر کو اختیار کرنے اور اسے پھیلانے کا حق دیا جائے۔
یہ وہ حق ہے جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے۔ جب کبھی کوئی فرد یا گروہ اس حق کو چھینتا ہے تو وہ معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔