انسان اور خدا ۔ ابویحییٰ
اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں اقسام کی انواع حیات پائی جاتی ہیں۔ مگر ان میں سے صرف انسان ہے جو چیزیں تخلیق کرسکتا ہے۔ انسان کی اس صلاحیت کا اظہار یوں تو ابتدا ہی سے ہوگیا تھا، مگر اس دور میں تو یہ تخلیقی صلاحیت ایک نئی دنیا کا ظہور کر چکی ہے۔ ہر سمت اور ہر جگہ انسانی تخلیقات کے ایسے کرشمے جلوہ گر ہیں کہ ان کا شمار ناممکن نظر آتا ہے۔ شاید یہی وہ پس منظر ہے جس میں اقبال نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ کہنے کی جرات کی تھی۔
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
اللہ تعالیٰ سے یہ خوبصورت اور جرات آمیز مکالمہ اقبال ہی کرسکتے تھے جو خود انسان کی صفت خلاقیت کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو نے رات پیدا کی تو میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی تو میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔ تو نے صحرا، پہاڑ، میدان بنائے تو میں نے راستے، چمن اور باغ بنا لیے۔ میں وہ ہوں جس نے پتھر سے آئینہ بنایا اور اور زہر سے تریاق پیدا کر لیا ہے۔
انسان کی یہی وہ تخلیقی صلاحیت ہے جس کی بنا پر تمام مخلوق جانداروں کی تخلیقی صلاحیت مل کر بھی تنہا ایک انسان کی تخلیقی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بلاشبہ یہ انسان کے لیے ایک انتہائی قابل فخر مقام ہے۔ مگر یہ فخر اس وقت سراپا عجز بن جاتا جس وقت انسان کی نظر عالم کے پروردگار کی تخلیقی صلاحیت کی طرف اٹھتی ہے۔ انسان پروردگار عالم کی تخلیقی قوت کے مقابلے میں اتنا پیچھے ہے کہ تمام انسان مل کر آج تک خدا کے طریقہ تخلیق کی ادنی اور بھونڈی سی نقل بھی نہیں تیار کرسکے۔
خدا کا طریقہ تخلیق کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے انسانوں کا طریقہ تخلیق سمجھ لیجیے۔ انسان جب چیزیں بناتے ہیں تو ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک وقت میں ایک یا کئی انسان مل کر ایک ہی ایک چیز بنا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک دستکار ایک وقت میں ایک پیالہ بنا سکتا ہے۔ صنعتی دور کے بعد انسان نے (Mass Production) کا طریقہ ایجاد کر لیا جس میں صنعتی پلانٹ اور کارخانوں میں ہزاروں لاکھوں اشیا ایک ساتھ تیار ہو سکتی ہیں۔ مگر پھر بھی یہ انسان کی مجبوری ہے کہ ہر چیز بنانے کے لیے ایک انسان یا مشین کی ضرورت ہر حال میں باقی رہتی ہے۔
دوسری طرف رب العالمین کا طریقہ تخلیق یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ ایک چیز بہترین ساخت پر بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چیز یا تخلیق اپنے جیسی چیزیں پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے۔ آم کا درخت اگتا ہے۔ جس سے آم پیدا ہو تے ہیں۔ انہی آموں کی گٹھلیوں سے نئے درخت لگ جاتے ہیں ۔نباتات، حیوانات اور انسان ہر جگہ یہی طریقہ تخلیق ہی کام کر رہا ہے کہ پیداوار ہی کچھ عرصے بعد پیداواری یونٹ بن جاتی ہے اور ختم ہونے سے پہلے اپنے جیسی متعدد چیزیں پیدا کرجاتی ہے۔
انسان کا عجز یہ ہے کہ وہ جو چیز بناتا ہے اس میں تمام تر توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ چیز اپنا مقصد تخلیق بہترین طریقے پر حاصل کرسکے۔ مثلاً ایک لائٹ اس طرح بنائی جاتی ہے کہ وہ کم سے کم جگہ گھیر کر زیادہ سے زیادہ روشنی پیدا کرسکے۔ اگر لائٹ بنانے کا کارخانہ بھی لائٹ کے ساتھ بنانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ہر اعتبار سے ایک ناقابل عمل آئیڈیا ہوگا۔
جبکہ پروردگار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تخلیقی یونٹ اپنا پیداواری یونٹ ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور جب وہ تخلیقی یونٹ اپنے کمال پر پہنچتا ہے تو وہ اگلی نسل کو تیار کرنے کے لیے ایک پیداواری یونٹ بھی بن جاتا ہے۔ جیسے آم کے درخت کا کمال آم کی پیداوار ہے جس کے بعد انہی آموں سے نئے درخت پیدا ہوجاتے ہیں۔
جب غور و فکر کرنے والی انسانی آنکھ اس حقیقت پر متنبہ ہوتی ہے تو انسان کی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کا رخ خدا کی حمد تخلیق کرنے کی طرف مڑ جاتا ہے۔ وہ رب کی عظمت کا اعتراف کر کے بے اختیار سجدے میں گرجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے پروردگار میں بندہ عاجز تیری حمد کیا کروں۔ تیری حمد تو پہاڑ اپنی بلندی میں، آسمان اپنی رفعت میں، درخت اپنی شادابی میں، دریا اپنی روانی میں، سمندر اپنی وسعت میں، زمین اپنے پھیلاؤ میں، چاند تارے اپنی چمک میں اور پھول اپنی خوشبو میں کر رہے ہیں۔ زمین و آسمان تیرے، نباتات و حیوانات تیرے، حیات و کائنات و جمادات تیرے۔ یہ سب مل کر تیری حمد، تسبیح اور کبریائی کر رہے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ تیری عظمت اور خلاقی کا گواہ ہوں۔ تو میری گواہی کو قبول فرما۔
یہی وہ گواہی ہے جسے خالق کائنات اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا کرتے ہیں۔ اور اسی کے نتیجے میں وہ انسان کو اپنی بہترین تخلیق یعنی فردوس کی بادشاہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے عیش و آرام کے درمیان بسا دیں گے۔