اختلاف اور انتشار ۔ ابویحییٰ
میرے مضامین پر لوگ بہت سے تبصرے کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں لوگ میرے خیالات سے اختلاف کرتے ہیں۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل ویلنٹائن کے حوالے سے لکھے گئے ایک مضمون پر ایک صاحب نے مجھے ایک اختلافی ای میل بھیجا۔ ان کے ای میل میں اٹھائے گئے نکات پر میرا اطمینان نہیں تھا لیکن اختلاف چونکہ ایک شائستہ انداز میں کیا گیا تھا اس لیے میں نے اپنے مضمون کے ساتھ سائٹ پر وہ اختلافی کمنٹ بھی شائع کر دیا۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جس امتحان میں ڈالا ہے آزادی اس کی بنیادی اساس ہے۔ اس آزادی کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے سے اتفاق اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے مکالمے کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے پر اپنی آرا اور خیالات ٹھونسنا شروع کر دیں۔ ان کے جوابی دلائل سننے اور سمجھنے کے بجائے یکطرفہ طور پر اپنے موقف پر قائم رہیں۔ دوسروں کی بات سمجھنے اور ان سے دلیل مانگنے کے بجائے اعتراض، الزام اور مہم جوئی کا طریقہ اختیار کرلیا جائے۔ پروپیگنڈے کی مہمیں چلائی جائیں۔ لوگوں کی نیت اور اخلاص پر ایسے گفتگو کی جائے جیسے وہ دل کا حال جانتے ہوں۔
یہی رویے معاشرے میں جمود اور انتشار پیدا کرتے ہیں۔ جمود اس لیے کہ ایسی مہم بازی جھیلنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ چنانچہ تخلیق کی نئی دنیا تعمیر کرنے والے حساس لوگ کونے میں دب کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انتشار اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جہاں علمی اور فکری اختلاف پر اہل علم کی شخصیت، کردار اور اخلاص کو ہدف بنالیا جائے وہاں لوگوں کا ہر شخص پر سے اعتبار ختم ہونے لگتا ہے۔
اس لیے اختلاف رائے ضرور کیجیے مگر شائستگی کے ساتھ اور دوسرے شخص کو بھی حق دیجیے کہ وہ آپ کے ساتھ اختلاف کرسکے۔