اخلاقی بحران ۔ ابو یحیی
بیگم کلثوم نواز کا لندن میں انتقال ہوگیا۔ پچھلے برس انھیں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد علاج کے لیے لندن لے جایا گیا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری لمحوں میں ان کے شوہر اور بیٹی ایک سیاسی لڑائی بھی لڑتے رہے۔ اس پس منظر میں بیگم کلثوم نواز کی بیماری ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بیمار ذہنیت کی ایک واضح نشانی بن کر سامنے آئی۔ ان کی بیماری پر جھوٹ، دھوکا اور ایک ڈرامہ ہونے کا الزام تواتر کے ساتھ لگایا گیا۔ حتیٰ کہ اعتزاز احسن جیسے سینئر سیاستدان بھی اس الزامی مہم میں شامل ہوگئے۔ گرچہ اب اعتزاز احسن نے اس پر معذرت کی ہے، مگر اس وقت جب بیگم کلثوم نواز کی موت پر ان کی بیماری کو جھوٹا ثابت کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت پانی کا بحران ہے۔ پاکستان کو ایک مشکل معاشی بحران کا سامنا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم کو ایک اخلاقی بحران کا سامنا ہے۔ ہمیں انتہا پسندی کی اس سوچ کا سامنا ہے جو مذہب کے بعد سیاست میں بھی غالب ہوچکی ہے۔ یہ انتہا پسندی لوگوں کو بنیادی اخلاقیات سے بھی بے بہرہ کر رہی ہے۔
قومیں پانی کے بحران سے نہیں مرتیں، وہ قومیں بھی نہیں جو صحرا میں آباد ہوتی ہیں۔ قومیں بڑے سے بڑے معاشی بحران سے نکل جایا کرتی ہیں۔ مگر تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جو قومیں اخلاقی بحران کا شکار ہوجاتی ہیں، ایک مکمل تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ہمیں اس نوشتہ دیوار سے اگر بچنا ہے تو اخلاقی بحران کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ بنانا ہوگا۔ انتہا پسندی کے اس جن کو قابو کرنا ہوگا جو بڑے بڑے دانشوروں کو عقل و خرد سے محروم کرچکا ہے۔ ہم نے اگر یہ نہیں کیا تو عالم کا پروردگار ہمیں تاریخ کے اس قانون سے کوئی استثنا نہیں دے گا جو اخلاقی طور پر پست اقوام کے بارے میں طے ہے۔ یعنی ایسی قومیں آخرکار تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔