اخلاقی تحریک ۔ ابویحییٰ
کیپ ماؤنٹ کراچی کا سب سے زیادہ خوبصورت ساحل ہے۔ یہ ہاکس بے سے آگے کی سمت سب سے آخرمیں آنے والا پکنک پوائنٹ ہے۔ یہاں کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ کچی سڑک پر سفر کرتے ہوئے آپ کو چاروں طرف ایک ہموار میدان ملے گا۔ مگر الٹے ہاتھ کی سمت آپ بمشکل سو دوسو میٹر چلیں گے تو اچانک معلوم ہو گا کہ آپ دراصل ایک ہموار پہاڑ کی سطح مرتفع پر کھڑے ہیں اور اس پہاڑ سے نیچے دور دور تک سبزی مائل نیلگوں پانی آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ خاص کر شام کے وقت ڈھلتے ہوئے سورج کی مدھم ہوتی روشنی میں یہ منظر اتنا دلکش ہوتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
اس پہاڑی میدان سے نیچے اترنے کے کئی قدرتی راستے ہیں جن کے ذریعے سے لوگ کراچی کے اس سب سے زیادہ صاف ستھرے اور ہموار ساحل تک پہنچتے اور اپنے گھر والوں اور دوسروں کے ہمراہ پتھروں سے محفوظ اس صاف ستھرے اور ریتیلے ساحل پر سمندر کی ہموار موجوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تاہم یہ ماضی کی باتیں ہیں۔ یہ اس وقت کی کہانی ہے جب انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو اس ملک میں اتنی ارزاں نہیں ہوئی تھی جتنی آج کل ہے۔ اُسی زمانے کا یہ قصہ ہے کہ کچھ لوگ کیپ ماؤنٹ پر پکنک منانے گئے۔ ایک نوجوان لڑکی ساحل سے کچھ دور پہاڑ کے سائے کے نیچے سستانے بیٹھی تو ہوا کی پیہم یلغار سے بوسیدہ ہوجانے والی ایک پہاڑی چٹان اپنی جگہ سے الگ ہوئی اور سیدھی نیچی بیٹھی اس لڑکی پر جا گری۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکی کے جسم کے کئی ٹکڑے ہوگئے۔ دھڑ کہیں، ٹانگیں کہیں اور ہاتھ کہیں اور جا گرے۔
اخبارات میں یہ واقعہ بھی شائع ہوا اور اس لڑکی کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی لاش کی تصویر بھی شائع ہوئی۔ میں نے جب یہ تصویر دیکھی تو مجھے خیال آیا کہ کائناتی طاقتیں مادی قوانین پر عمل کرتی ہیں۔ یہ قوانین بالکل اندھے ہوتے ہیں۔ یہ جب روبہ عمل ہوتے ہیں تو انھیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ کسی کی جان جا رہی ہے یا کسی کی دنیا برباد ہورہی ہے۔ یہی مادی دنیا کا اصول ہے۔
تاہم انسانی دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک مادی دنیا میں پیدا کر کے اخلاقی حس بھی عطا کی ہے۔ انسان اپنے ہر عمل کو اس اخلاقی حس کی روشنی میں جانچ کر قدم اٹھاتا ہے۔ وہ کیپ ماؤنٹ کی چٹان کبھی نہیں بن سکتا جو اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے یہ نہ سوچے کہ اس کے نتیجے میں کسی کی جان چلی جائے گی۔ یہ اخلاقی حس نہ ہو تو انسان کو اختیار کی جو طاقت اورعقل کی جو استعداد دی گئی ہے وہ اتنی خوفناک ہے کہ انسان اس دنیا کو برباد کرکے رکھ سکتا ہے۔ یہ اخلاقی حس زندہ نہ ہو تو دنیا کا کوئی قانون کوئی ضابطہ انسان کی اس تباہ کن صلاحیت کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔
بدقسمتی سے دور جدید کے ہمارے مصلحین اس حقیقت سے بالکل ناواقف معلوم ہوتے ہیں کہ انسان کے اخلاقی وجود کو طاقتور بنائے بغیر معاشرے کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں صرف قانون کی طاقت سے معاملات کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہر پہلو سے ایک غلط بات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشروں کی اصلاح اور ان میں بہتری اس وقت آتی ہے جب تعلیم اور تربیت کے ذریعے سے لوگوں کی اخلاقی حس کو پوری طرح زندہ کر دیا جائے۔ جان، مال عزت و آبرو کے تحفظ کا سبق ان کی گھٹی میں ڈال دیا جائے۔ عدل، احسان، ہمدردی کے اعلیٰ انسانی جذبات کی قدر و قیمت ان کی نظر میں نمایاں کر دی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک اخلاقی تحریک چلائی جائے۔ اس اخلاقی تحریک کے بغیر ماضی میں کبھی کسی معاشرے کی اصلاح ہوئی ہے نہ مستبقل میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اس کے بغیر ہمارے ظلم کرنے والے بدل سکتے ہیں۔ معاشرے سے ظلم و بربریت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔