اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ۔ یووال نوح ہراری
[23 جنوری، 2020 کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں دورِ حاضر کے مشہور فلسفی اور تاریخ دان یووال نوح ہراری بھی مدعو تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اکیسویں صدی میں درپیش ان مسائل کی طرف توجہ دلائی جن کا تعلّق انسانیت کی بقا سے ہے۔ انذار کے قارئین کے لیے ان کی تقریر کا ترجمہ و خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جس میں ان مسائل کو خاص طور پر واضح کیا جائے گا جن کا تعلّق ہمارے جیسے معاشروں سے ہے۔ یہ تلخیص و ترجمہ جناب عادل عطا نے کیا ہے۔]
اکیسویں صدی میں انسان کو جن بیشتر مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے تین خطرات ایسے ہیں جن کا تعلّق انسانیت کی بقا سے ہے: جوہری جنگ (nuclear war)، ماحولیاتی بگاڑ (ecological collapse) اور ٹیکنالوجی کا انتشار (Technological disruption)۔ پہلے دو خطرات سے تو لوگ بالعموم واقف ہیں، لہٰذا آج میں ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے خطرات پر روشنی ڈالوں گا۔
اس فورم پر کئی مرتبہ یہ بات دہرائی گئی کہ ٹیکنالوجی کس طرح ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو کہ ایک حقیقت ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی ٹیکنالوجی انسانی معاشروں کو بیشتر نئے مسائل سے بھی دوچار کرسکتی ہے جن میں ایک عالمی ناکارہ طبقے کے پیدا ہوجانے سے لے کر ڈیٹا کولونیل ازم (data colonialism) اور ڈیجیٹل آمریت (Digital Dictatorship) جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔
ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمیں سب سے پہلے معاشی اور معاشرتی سطح پہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آٹومیشن (Automation) کے نتیجے میں بہت سے پرانے پیشے ختم ہو جائیں اور نتیجتاً بے روزگاری پھیلے۔ اگرچہ اس کے بعد بہت سے نئے پیشے اور ہنر وجود میں آئیں گے، البتہ انہیں مقررہ مدّت میں سیکھنا انسان لیے کتنا ممکن ہوگا، یہ کہنا انتہائی مشکل ہے۔ مثال کے طور پہ جب ایک ۰۵ سالہ ٹرک چلانے والا سیلف ڈرائیونگ وہیکل (Self Driving Vehicle) کے آجانے سے بے روزگار ہوجائے گا، تو کیا اس کے لیے کوئی دوسرا ہنر سیکھ کر نئے سرے سے شروعات کرنا ممکن ہوگا؟ پھر ایسا نہیں ہے کہ آٹومیشن ایک حادثہ ہے جو ایک بار پیش آگیا اور پھر آہستہ آہستہ چیزیں دوبارہ اپنے توازن پہ آجائیں گی۔ اس کے برعکس وقتاً فوقتاً نئے ہنر پیدا ہوں گے اور ختم ہو جائیں گے، اور ان کی جگہ دوسرے نئے ہنر لے لیں گے۔ لہٰذا اس سب کے نتیجے میں عالمی سطح پر بے روزگاری پھیلے گی اور ایک عالمی ناکارہ طبقہ وجود میں آئے گا جو معاشی اعتبار سے بالکل غیرمتعلق (irrelevant) ہوگا۔ بالآخر جو لوگ اپنے آپ کو اس طرح irrelevant ہونے سے نہیں بچا پائیں گے، ان کے اور دوسروں کے درمیان ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سماجی امتیاز پیدا ہو جائے گا۔
مزید یہ کہ ٹیکنالوجی صرف انسانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ملکوں کے درمیان بھی ایک غیرمعمولی امتیاز پیدا کر دے گی۔ انیسویں صدی میں جو ممالک، جیسا کہ برطانیہ اور جاپان، صنعتی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے نکل گئے تھے انہوں نے بالآخر دوسری اقوام پہ قبضہ کیا اور ان کا استحصال کیا۔ بالکل اسی طرح آج اے آئی (AI) جیسی ٹیکنالوجیز میں آگے نکل جانے والی اقوام کو بھی نہ صرف دوسری اقوام پر غیرمعمولی برتری حاصل ہوگی بلکہ ان کے استحصال کا بھی بھرپور موقع حاصل ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ امریکا اور چین جیسے ممالک پہلے ہی اے آئی ہتھیار بنانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اے آئی کے ذریعے چند ممالک کو حاصل ہونے والی یہ انتہائی غیرمتوازن برتری آج سے تیس یا پچاس سال بعد وینزویلا، برازیل، انڈیا اور انڈونیشیا جیسے دوسرے ممالک کے لیے کیسی خطرناک صورتحال پیدا کر دے گی اس کا اندازہ لگانا بہت ضروری ہے۔
ٹیکنالوجی کا انقلاب پیچھے رہ جانے والے ممالک کے لیے مزید دشواریاں پیدا کر دے گا۔ ذرا سوچیں، جب ترقی پذیر ممالک میں ہونے والا لیبر ورک (Labor Work) بھی اے آئی اور آٹومیشن کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے گا تو تیسری دنیا کے ممالک پہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ پھر محض یہی نہیں، امیر ممالک غریب ممالک کی سیاست پر بھی بری طرح اثرانداز ہوں گے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مکمّل طور پر حاوی ہو جائیں گے۔ ذرا سوچیں، جب ترقی یافتہ ممالک کو پسماندہ ملک کے ہر فرد کے تمام معاملات کی خبر ہوگی جن میں صحت اور کرپشن کے معاملات سے لے کر ہر نوعیت کے ذاتی معاملات بشمول جنسی رجحانات اور ذہنی استعداد شامل ہوں گے تو اس ملک کے سیاست دانوں، صحافیوں، ججز اور دیگر عہدے داروں کو قابو میں کرنا اور رکھنا کتنا آسان ہوگا۔ نتیجتاً چھوٹے ممالک بڑے ممالک کی ایک ڈیٹا کالونی بن کے رہ جائیں گے، جنہیں قابو کرنے کے لیے کوئی ہتھیار نہیں، بلکہ ان کا ڈیٹا ہی کافی ہوگا۔
ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والا جو تیسرا خطرہ ہمیں درپیش ہوگا، وہ ڈیجیٹل آمریت کا ہوگا۔ ایک ایسی آمریت جس میں ہر شخص کو ہر وقت مانیٹر(monitor) کیا جارہا ہوگا۔ اس خطرے کو ہم ایک equation سے سمجھ سکتے ہیں۔
B * C * D = A H H
Biological Knowledge * Computing Power * Data =Ability to Hack Human
اس equation کا مطلب یہ ہے کہ اگر کمپیوٹنگ پاوراور ڈیٹا کے ساتھ حیاتیاتی علم (Biological Knowledge) بھی شامل ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ایک ایسا سسٹم وجود میں آسکتا ہے جس کے ذریعے لوگوں کو ہیک کیا جاسکے گا۔ یہ سسٹم کسی بھی انسان کو خود اس انسان سے بہتر جانتا ہوگا۔ ایسا سسٹم نہ صرف انسان کے فیصلوں کی پیشین گوئی کرسکے گا، بلکہ اس کے فیصلوں پہ اثرانداز بھی ہوگا۔ اور اس سے آگے بڑھ کے انسان کی جگہ خود فیصلے بھی کرے گا۔ ماضی میں بہت سے آمروں اور حکومتوں نے یہ چاہا کہ کسی طرح وہ دوسرے انسانوں پہ قابو پالیں، لیکن اس وقت یہ ممکن نہیں تھا۔ البتہ آج ہمارے پاس اے آی اور بائیوٹیک (biotech) کی شکل میں وہ ٹیکنالوجیز موجود ہیں جن کے بعد یہ کام اب زیادہ دور نہیں رہا۔ مثال کے طور پہ صرف ایک Bio metric Bracelet کے ذریعے آپ کا بلڈ پریشر، ہارٹ ریٹ اور دماغی سرگرمیاں معلوم کی جاسکتی ہیں۔ ذرا سوچیں، آپ ایک لیڈر کی تقریر سن رہے ہوں گے اور اس آلے کے ذریعے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسی اور اس جیسی دوسری ٹیکنالوجیز کے نتیجے میں کیسی ڈیجیٹل آمریت وجود میں آئے گی۔
یہی نہیں، انسانوں کو ہیک کرنے کی صلاحیت آخرکار انسان سے اس کی آزادی بھی چھین لے گی۔ مستقبل میں لوگ اپنے فیصلے کرنے کے لیے اے آئی پہ انحصار کریں گے جس کے نتیجے میں اختیار انسان کے پاس سے نکل کر algorithms کو منتقل ہو جائے گا۔ ہم آج بھی اس کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ آج بھی فیس بک کا algorithm ہمیں بتاتا ہے کہ کیا نیا ہے۔ گوگل کا algorithm ہمیں بتاتا ہے کہ کیا صحیح ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ ایسے اور algorithms آنا شروع ہو جائیں گے جو ہمیں بتائیں گے کہ ہمیں کہاں نوکری کرنی ہے، کہاں شادی کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح یہ بھی algorithms ہی بتایا کریں گے کہ کس کو نوکری پر رکھنا ہے اور کس کو loan دینا ہے۔ اس دور میں جب کسی شخص کو loan نہیں ملے گا اور وہ اس کی وجہ جاننا چاہے گا، تو ایسے تمام مواقعوں پہ اسے ایک ہی جواب ملے گا:
The Computer says, "No!”
عام طور پہ ایک فلسفی کے پاس ہمیشہ نت نئے خیالات ہوتے ہیں جبکہ سیاستدانوں کے پاس ہمیشہ ان ذرائع کی کمی رہتی ہے جن سے وہ ان خیالات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ آج صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ آج مختلف ادارے اور سیاستدان ٹیکنالوجی کے ذریعے نئی دنیائیں تخلیق کر رہے ہیں، جبکہ فلسفی یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ اس نئی دنیا کے انسانیت پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ آج اے آئی اور بائیو ٹیکنالوجی نے انسانوں کو خدائی صلاحیتیں دے دی ہیں، جن کے ذریعے وہ انسان میں تخلیقی تبدیلیاں تک کر سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر ان مسائل پہ غور کریں، ورنہ ممکن ہے کہ ہم تاریخ کے ایک ایسے مقام پہ جا کھڑے ہوں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک مل کر عالمی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ اس لیے کہ ان خطرات سے بروقت اور صحیح طریقے سے نہیں نمٹا گیا، تو ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں انسانیت کو ایسے حادثات کا سامنا ہو جن کے بعد انسانیت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔