ہدایت کے دو ادوار ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید سے ہدایت کی جو تاریخ سامنے آتی ہے اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر خطے میں اپنے ہدایت دینے والوں کو بھیجا اور ان کے ذریعے سے ان کو اپنی ہدایت اور مرضی سے آگاہ کیا۔ اس دور میں جو نمائندہ اور اہم اقوام تھیں ان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیجا۔ ان رسولوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا پیغام نہ صرف اس قوم تک پہنچا بلکہ اس قوم کو یہ بتا دیا گیا کہ ان کے کفر کی پاداش میں ہر نافرمان کو چن چن کو ماردیا جائے گا۔ اور صرف ایمان لانے والوں کو بچایا جائے گا۔
حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح علیہم السلام اور ان جیسے متعدد پیغمبروں کو اسی اصول پر ان کی قوموں میں بھیجا گیا۔ قوم نے جب ان کی بات نہ مانی تو اسے آخر کار ہلاک کر دیا گیا۔ گنتی کے چند لوگ جو ایمان لائے صرف ان کو بچایا گیا۔ تاہم ہر دفعہ یہ ہوتا تھا کہ یہ بچنے والے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ساری گمراہیوں کا شکار ہوجاتے جس کا شکار اگلے لوگ ہوئے تھے۔ چنانچہ پھر ایک نئے رسول کی بعثت ہوتی۔ پھر اس کا انکار ہوتا۔ پھر قوم ہلاک کر دی جاتی۔
پوری پوری قوموں کی ہلاکت ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔ چنانچہ قوم کی ہلاکت کی شکل میں مرنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ پھر قومیں اپنی گمراہی میں اتنی شدت سے مبتلا تھیں کہ وہ کسی سچائی کو مان کر ہی نہیں دے رہی تھیں۔ چنانچہ ان کی ہلاکت ناگزیر تھی۔ یہ سلسلہ جاری رہتا تو انتہائی خوفناک نتائج نکلتے۔ قومیں اس دنیا میں ہلاکت کے انجام سے اور ان کے افراد آخرت میں جہنم کے انجام سے دوچار ہوتے۔
یہی وہ حالات تھے جن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اصل مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک دوسرا انتظام کیا۔ اس انتظام کو سمجھنے کے لیے پہلے مسئلے کو سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانیت کا آغاز ایک نبی حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔ چنانچہ ساری انسانیت ابتداء میں توحید ہی پر قائم تھی۔ تاہم آہستہ آہستہ شیطان کی دراندازی اور انسانی کمزوریوں کی بنا پر شرک پھیلنا شروع ہوا۔ شرک اتنا زیادہ عام ہوا کہ پورا سماج اور پوری ریاستی قوت شرک کی سرپرست بن گئی۔ ایسے میں ایک اللہ پر ایمان لانا، ایک رسول کی بات کو جو بالکل اجنبی تھی قبول کرنا پورے سماج، اس کی اقدار اور سب سے بڑھ کر خود ریاست سے ٹکرانے کے ہم معنی بن گیا۔
پھر یہ کسی ایک علاقے کا معاملہ نہ تھا۔ بلکہ شرک ایک عالمگیر تہذیبی قدر کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ رسولوں کی دعوت کے بعد جب ان کی قوم ہلاک کی جاتی اور نئی امت توحید خالص سے اپنا آغاز کرتی تب بھی عالمی اثرات سے متاثر ہو کر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں پھر وہی گمراہیاں پھیل جاتیں۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں ہدایت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ اس دور میں پہلے یہود اور پھر عربوں کی شکل میں توحید کی بنیاد پر ایک پورا معاشرہ قائم کیا گیا۔ ان کے ذریعے سے دوسری اقوام تک توحید کا پیغام پہنچتا۔ جو لوگ ایمان لاتے ان کے سامنے ایک ماڈل بھی ہوتا اور کسی ظلم اور جبر کی صورت میں یہ توحیدی معاشرہ اس کو مکمل پناہ دیتا۔ اس دور میں انبیاء و رسل کی عالمی بعثت کم ہوتی گئی۔ جو نبی آتے وہ بھی زیادہ تر اسی توحیدی معاشرے کی اصلاح کے لیے آتے۔ یہاں تک کہ آخری نبی کے ساتھ رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
اب تا قیامت یہ امت مسلمہ نبیوں اور رسولوں کی جگہ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں اور دنیا کو بھی اس کی طرف بلاتے رہیں۔ اسی میں ان کی ساری عزت اور ذلت کا راز پوشیدہ ہے۔