حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے ۔ ابویحییٰ
زمانہ قدیم کا انسان گاؤں دیہاتوں میں فطرت کے اندر جیتا تھا۔ اس کے ہر طرف پرندے چہچہاتے تھے۔ رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے تھے۔ دور دور تک فصلیں لہلہاتیں تھیں۔ بارش ہوتی تو دور تک پھیلی زمین گل و گلزار ہوجاتی۔ جگہ جگہ سبزہ زار اور گلزار وجود میں آجاتے تھے۔ رات ہوتی یہ مناظر سمٹ جاتے مگر تاروں بھرا جگمگاتا آسمان انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا۔ چاندنی راتیں ہوتیں تو آسمان چاند سے اور زمین چاندنی سے سج جاتی۔ پھر سورج تو ہر صبح و شام اپنے جلوے افق پر بکھیرتا رہتا اور نگاہیں انھیں سمیٹتی رہتیں تھیں۔
فطرت آج بھی وہی ہے، مگر اب کائنات کے بارے میں ہمارا علم بہت بڑھ چکا ہے۔ کائنات اور خود انسان کے بارے میں جو حیرت انگیز معلومات سامنے آئیں ہیں ان کا مطالعہ انسان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ معلومات اتنی حیرت انگیز اور تفصیلی ہیں کہ سارے درخت قلم اور سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی یہ حیرت انگیز تفصیلات ختم نہ ہوں۔
فطرت کا مطالعہ اور سائنس کا علم ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہاں ہر جگہ آرٹس اور سائنس کے ہر شعبے کے شاہکار موجود ہیں۔ مصوری، موسیقی، انجینئرنگ، آرکیٹکچر، میتھس غرض ہر شعبہ علم کا ماہر جو آخری چیز تخلیق کرسکتا ہے، خدا اس سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ چیزیں پہلے ہی بنا چکا ہے۔ ایک بندہ مومن جب یہ دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ کتنا ہی قادر الکلام کیوں نہ ہو، اسے لگتا ہے ہر انسانی بیان خالق کائنات کی صفات و کمالات کو بیان کرنے میں آخری درجہ میں عاجز ہے۔ اپنی بیکسی پر اس کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور وہ یہ کہہ کر چپ ہوجاتا ہے۔
کہہ دے گی سب کچھ ان کے ثنا خواں کی خاموشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کہ میں کیا کیا کہوں تجھے