سوال و جواب : حضرت ابراہیم کی اپنے بیٹے کی قربانی پر کانٹ کا اعتراض ۔ ابویحییٰ
السلام علیکم سر ابویحیٰ
حضرت ابراہیم کےحوالے سے آپ کی پوسٹ پر درج ذیل دو سوالات کیے گئے ہیں۔ قارئین کی درخواست ہے کہ مہربانی کرکے ان کا جواب دے دیں۔
1۔ اس سب میں کانٹ کے اشکال کا جواب کہاں ہے؟ معلوم ہوتا ہے صاحب پوسٹ کو کانٹ کے فلسفہ اخلاق اور اس سے برآمد ھونے والے اشکال کی نوعیت کی بابت خبر نہیں۔ خیر اسے چھوڑئے ایک طرف کہ یہ مستقل مضمون ہے، کیا ایک تیرہ چودہ سال کے بیٹے کو پوچھ کر اسے قتل کرنے کا ارادہ و کوشش کرنا اخلاقا درست ہوگا؟ کانٹ کے فلسفہ اخلاق میں بھی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ انہوں نے بیٹے سے پوچھا تھا یا نہیں۔
2۔ پھر کیا یہ بات درست نہیں کہ اصلاحی صاحب کے یہاں اس مقام پر "عنداللہ” اور "عندالرسول” مراد میں فرق تھا؟ اگر ہاں، تو اسے تعبیری لغزش کے سواء اور کیا کہا جائے؟
جواب:
کانٹ کا فلسفہ اخلاق کیا ہے اور اس کے اشکال کا کتنا جواب قرآن مجید کی بات میں ہے، وہ تو یہ فقیر اس وقت بتائے گا جب یہ سوال کانٹ کا کوئی نمائندہ اس سے پوچھے گا۔ سردست تو یہ عاجز صرف سائل کے سوال کے جواب تک خود کو محدود رکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک تیرہ چودہ سال کے بیٹے کو پوچھ کر اسے قتل کرنا اخلاقا درست ہوگا؟ جواب یہ ہے کہ قرآن مجید اس معاملے کو کسی تشریعی امر کے طور پر پیش نہیں کر رہا کہ اخلاقیات کا کوئی سوال پیدا ہو۔ یہ ایک نبی کے ذریعے سے سرانجام پانے والا تکوینی معاملہ تھا۔ تکوینی معاملات رب العالمین کی قدرت و حکمت کا ظہور ہوتے ہیں۔ اس تکوینی پہلو سے، مثال کے طور پر، صبح و شام دنیا میں معصوم لوگ مرتے ہیں۔ ان سے بغیر پوچھے ان کی جان لے لی جاتی ہے۔ کوئی اخلاقی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں قرآن کی روشنی سے محروم کچھ فلسفی سوالات ضرور اٹھاتے ہیں۔ اس عاجز نے اپنی متعدد تصانیف میں ان فلسفیوں کے سوالات کے جوابات قرآن مجید کی روشنی میں دیے ہیں۔ مگر قرآن مجید کا کوئی مومن ان تکوینی معاملات پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔
یہی اصل چیز ہے جو قرآن یہاں بیان کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کوان کی امت میں جاری کرنے کے لیے کوئی تشریعی حکم نہیں دیا تھا۔ یہ خواب کے ذریعے سے دکھایا جانے والا ایک امر الہی تھا۔ پیغمبر ہونے کی بنا پر وہ خود اس تکوینی امر میں آلہ کار بننے کے لیے تیار تھے۔ لیکن بیٹے کی منشا پوچھنا اس لیے ضروری تھا کہ فیصلے کا نفاذ اس پر ہونا تھا۔ اس لیے یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ بیٹے کے سامنے بات رکھ دی جاتی۔ نبی اللہ کے نبی بیٹے نے جو نبوت سے قبل بھی صدیق تھا، ان کے خواب کو خدا کا حکم سمجھا۔ اور اس کے حکم کے سامنے جان دینے کو دل و جان سے قبول کیا۔
یہیں سے اس مسئلے کے ممکنہ انسانی پہلو کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ انسانی جان پ ردو بنیادی اور ایک ثانوی اخلاقی حق قائم ہوتا ہے۔ ایک زندگی دینے والے خدا کا، دوسرا اس شخص کا جس کو زندگی دی گئی ہو۔ تیسرا حق ولی کا ہوتا ہے۔ اس خاص معاملے میں خدا کا فیصلہ باپ نے سنا دیا تھا اور اپنا حق بیٹے نے خود چھوڑ دیا۔ باپ خود ہی بیٹے کا ولی تھا اور اللہ کے سامنے پہلے ہی سر تسلیم خم کرچکا تھا۔ اس کے بعد کسی اور کی کیا حیثیت ہے کہ وہ پیغمبر علیہ السلام پر انسانی یا اخلاقی پہلو سے سوال اٹھائے؟
تاہم اس بحث سے قطع نظر ایک اور پہلو بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ اگر سائل کے سوال کو لے کر اس کے بارے میں یہ گفتگو کر دی جائے کہ اس نے پیغمبر علیہ السلام کو قتل کا مجرم ٹھہرا دیا ہے۔ پیغمبر کو اخلاقی طور پر غلط کاموں میں مبتلا قرار دے دیا ہے، اس نے وحی الہی پر اعتراض کر دیا ہے تو ہمارے اس رویے کو بدنیتی کے سوا کیا نام دیا جائے گا۔ اس بدنیتی کے ساتھ کسی بھی عالم، محقق، مفسر کو کفر، گستاخی، شرک، تجدد پسندی، بدعت غرض ہر دینی جرم کا مرتکب ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ کہنے ولا نکتہ آفرینی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
یہیں سے یہ عاجز سائل کے دوسرے سوال کی طرف آتا ہے۔ یعنی سائل کے نزدیک اصلاحی صاحب کے یہاں اس مقام پر "عنداللہ” اور "عندالرسول” مراد میں فرق تھا اور اسی لیے ان کے نزدیک اصلاحی صاحب نے ابوالانبیاء کو تعبیری لغزش کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ یہ کیا رویہ ہے؟ اصلاحی صاحب نے کس مقام پر میرے آقا ابراہیم کے حوالے سے کسی تعبیر یا سوئے تعبیر کا ذکر کیا ہے؟ اس خاکسار نے اصلاحی صاحب کا پورا نقطہ نظر جو سلیس اردو میں لکھا ہوا تھا بیان کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھی بلا دلیل ایک سوال اٹھا دینا نکتہ آفرینی کے سوا کیا ہے۔ مگر یہ کر دیا ہے تو پڑھیے اصلاحی صاحب کیا لکھتے ہیں۔
’’اگرچہ یہ ہدایت خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی بات محتاج تاویل و تعبیر ہوتی ہے اس لیے حضرت ابراہیمؑ چاہتے تو اس کی کوئی تاویل کر لیتے لیکن وہ ایک صداقت شعار اور وفادار بندے تھے اس وجہ سے اس کی کوئی تعبیر نکالنے کے بجائے وہ اس کی من و عن تعمیل کرنے پر آمادہ ہو گئے۔‘‘
اصلاحی صاحب ’’عندالرسول‘‘ تعبیر بیان نہیں کر رہے۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ آقا ابراہیم نے من و عن حکم کی تعمیل کر دی تھی۔ یہ بیان تعبیر نہیں ہے، ان کا بیانِ اسلام ہے، امتثال امر کی وضاحت ہے۔ اطاعت الہی کے جذبے کا بیان ہے۔
میں اس گفتگو کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ نہ آئندہ اپنے اُس قلم کو اہل علم کے دفاع کے لیے فارغ کرنا چاہتا ہوں جو شیطان کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس لیے بڑے اہل علم پر اس طرح کی تہمتیں لگانے والے تمام لوگوں سے دو چار گزارشات ہیں۔ ایک یہ کہ آگر آپ لوگ سلیس اردو میں لکھی ہوئی عبارتیں نہیں سمجھ سکتے، اور کسی کا نقطہ نظر پوری طرح سمھجنے کے لیے نہ اس کی کتاب کھول کر دیکھنے کا وقت ہے، نہ خالص فنی چیزیں سمجھنے کی صلاحیت تو اللہ کے بندو! آپ سے کس نے کہا ہے کہ اتمام حجت، قطعی الدلالۃ اور ان جیسے انتہائی مشکل فنی مباحث میں چھلانگ لگا دو۔ اور اگر یہ کام کرنے کا شوق ہی ہے تو کیا ضروری ہے کہ اپنے ناقص اور سطحی علم کے ساتھ بڑے اہل علم کی نیت پر حملہ کیا جائے، ان پر سنگین الزامات لگائے جائیں، ان کو متجدد اور استعمار کا ایجنٹ قرار دیا جائے۔ کیوں اپنی آخرت کو اتنا سستا بیچ رہے ہو؟ کیوں اپنی لگام شیطان کے ہاتھ میں دیتے ہو؟ کسی چیز کو غلط سمجھ کر تنقید کرنا آپ کا حق ہے۔ مگر خدارا یہ کرنے سے قبل اپنے اندر اس کام کی صلاحیت تو پیدا کریں۔ یہ کریں گے تو تنقید سے سب کو فائدہ ہوگا۔ ہمارے جیسے طالب بھی کچھ سیکھ لیں گے۔ ورنہ باخدا بہت سی تنقیدیں دیکھ کر صرف رونا آتا ہے کہ بڑے لوگ جب ہمارے جیسے چھوٹے لوگوں میں پیدا ہوجائیں تو ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
تاہم اس کے بعد بھی لوگ اپنی روش نہیں بدلتے تو ہمارا کام بس سمجھانا ہی ہے۔ جب انسان اپنا مقدمہ پیش کرنا بند کر دیتے ہیں تو فرشتے ان کا مقدمہ تیار کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ مقدمہ اس ہستی کی بارگاہ میں پیش ہوگا جو سب سے بڑھ کر فیصلہ کرنے والی ہے۔ اس بارگاہ میں بدنیتی کے ساتھ نکتہ آفرینی کرنا کسی کو اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔ خدا کے نام پر کھڑے ہوئے کتنے ہی لوگ ہیں جو خدا کی پکڑ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اگر جان لیں تو لکھنا چھوڑ دیں گے۔ اگر جان لیں تو بولنا چھوڑدیں گے۔
بندہ عاجز
ابو یحییٰ