حضرت ابراہیم: ایک عہد ساز شخصیت ۔ ابویحییٰ
تاریخ دعوت کے اہم دو مراحل ہیں۔ ایک مرحلہ وہ ہے جس میں انبیا و رسل کے ذریعے سے دنیا کو ہدایت ملتی تھی۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جس میں ایک پوری امت اٹھا کر اس کے ذریعے سے دنیا کے سامنے ہدایت کا ایک مستقل ماڈل رکھ دیا گیا۔
ہدایت کا یہ دوسرا دور جس عہد ساز شخصیت کے ذریعے سے شروع ہوا وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ان کی بعثت آج سے چار ہزار سال قبل کے لگ بھگ موجودہ عراق کے علاقے میں ہوئی۔ پہلے وہ اپنی قوم کی طرف ایک رسول کے طور پر بھیجے گئے۔ جب قوم نے کفر کیا تو ان کی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ ہوگیا اور وہ اللہ کے حکم سے ہجرت کرگئے۔
عام رسولوں کی داستان اس مرحلے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ تاہم سیدنا ابراہیم کی یہ عظمت ہے کہ اس مقام سے ان کی داستان نے ایک نیا رخ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مختلف سخت ترین امتحانوں سے گزارا اور جب وہ ان امتحانوں میں پورا اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام انسانیت کے لیے رہنما بنا دیا گیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ آنے والی تمام انسانیت ان کی اولاد کے ذریعے سے ہدایت پائے گی۔
اس فیصلے کا پس منظر یہ تھا کہ شرک اس دور میں پوری دنیا میں اس طرح پھیل چکا تھا کہ توحید کی دعوت کے فروغ کا ہر امکان ختم ہوچکا تھا۔ قومیں کی قومیں تباہ ہوجاتی تھیں، مگر شرک اور بداخلاقی کو نہ چھوڑتی تھیں۔ کسی ایسے شخص کا جینا عملاً ناممکن بنا دیا گیا تھا جو دین حنیف کا پیروکار ہو۔ یہ بات حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط کی قوم کی تباہی کے بعد اور واضح ہوگئی۔
چنانچہ اس پس منظر میں ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بنجر وادی میں بسا دیں۔ یہاں دونوں باپ بیٹوں نے مل کر اللہ کے حکم سے اللہ کے گھر خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذمہ داری یہ تھی کہ اس بنجر صحرا کے سخت ترین حالات میں رہ کر بھی اللہ کے اس گھر کو آباد رکھیں۔ اپنی قوم بنی جرہم کو دین حنیف کی تربیت دیں۔ اور دنیا بھر میں جو کچھ خدا پرست بچے ہیں، ان کے لیے توحید کے اس واحد مرکز کے دروازے کھلے رہیں۔ یہی حضرت اسماعیل ہیں جن کی اولاد میں دو ہزار سال بعد سرکار دو عالم پیدا ہوئے اور اپنی قوم بنی اسماعیل کو اسلام کی دعوت دی۔
جبکہ ان کے دوسرے بیٹے اسحاق اور ان کے بیٹے یعقوب اور پھر ان کی اولاد کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ دنیا کے مرکز یعنی فلسطین میں رہ کر شرک کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے اور توحید کا علم بلند رکھیں گے۔ حضرت یعقوب کا لقب اسرائیل تھا۔ اسی مناسبت سے ان کی اولاد سے بننے والی قوم بنی اسرائیل یا یہود کہلائی۔ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر میں جا کر آباد ہوگئے۔ کئی صدی بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب فرعون کو اس کے کفر کی پاداش میں ہلاک کیا گیا تو بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی اور فلسطین میں آباد ہوئے۔
حضرت ابراہیم کی اولاد میں پہلے بنی اسرائیل کو دنیا کی امامت اور رہنمائی کے منصب پر فائز کیا گیا۔ مگر جب انہوں نے مسلسل نافرمانی کی تو ان کو اس منصب سے معزول کر دیا گیا۔ پھر بنی اسماعیل کو یہ منصب دیا گیا۔ اب تا قیامت وہی اس منصب پر فائر رہیں گے۔
حضرت ابراہیم کے دور سے لے کر آج تک ان کی اولاد اور ان کے نام لیوا ہی اس دنیا میں اللہ کی ہدایت کے امین ہیں۔ ان ہی کے ذریعے سے دنیا کو ہدایت ملتی ہے۔ ان ہی کی کوتاہی سے دنیا ہدایت سے محروم رہ جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کے متبعین اگر اس حقیقت کو پہنچان کر اپنا کام کریں گے تو عزت ان کا مقدر ہے۔ وہ اس منصب کو بھولے رہیں گے تو ذلت اور مغلوبیت ان کا مقدر بنے گی۔