حضرت آدم کو کیوں پیدا کیا گیا؟ ۔ ابویحییٰ
سوال: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو کیوں پیدا کیا؟ (وقاراحمد)
جواب: قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اس پورے منصوبے اور اس کی حکمتوں سے فرشتوں کو اس طرح مطلع کیا:
’’اور (یاد کرو) جبکہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انھوں نے کہا: کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے، اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں؟ اس نے کہا:میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اس نے سکھا دیے آدم کو سارے نام۔ پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان لوگوں کے ناموں سے آگاہ کرو انھوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہمیں تو تو نے جو کچھ بتایا ہے اس کے سوا کوئی علم نہیں۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ کہا: اے آدم! ان کو بتاؤ ان لوگوں کے نام۔ تو جب اس نے بتائے ان کو ان لوگوں کے نام تو اس نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں، اور میں جانتا ہوں اس چیز کو جس کو تم ظاہر کرتے ہو اور جس کو تم چھپاتے ہو۔ اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کوسجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے بن گیا۔‘‘، (البقرہ۔30:34)
ان آیات میں آپ کے سوال کے حوالے سے درج ذیل باتیں اہم ہیں:
۱) انسان کو بحیثیت ایک ’خلیفہ‘ کے پیدا کیا گیا۔ خلیفہ عربی زبان میں تین معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جانشین، نائب اور بادشاہ۔ یہاں پہلے دو معنوں کا کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا۔ یعنی کسی پیشرو کا ذکر نہیں کہ اس کا جانشین مانا جائے اور کوئی اصل مذکور نہیں جس کے نائب کا بیان مانا جائے۔ یہاں صرف حکمران اور بادشاہ کا مفہوم ہی موزوں ہے جیسا کہ حضرت داؤد جو فلسطین کے حکمران تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ (حکمران) بنایا تو لوگوں کے درمیان حق و عدل کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمھیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے۔ (ص26:38)
چنانچہ ان آیات میں انسان کے خلیفہ ہونے سے مراد یہی ہے کہ اسے زمین میں ایک صاحبِ اقتدار، اور صاحب اختیار حکمران کے طور پر پیدا کیا جارہا ہے۔
۲) اس خلیفہ سے وہی کچھ مقصود تھا جس کا ذکر اوپر حضرت داؤد سے کیا گیا۔ یعنی حق کی پیروی اور خواہشِ نفس کی پیروی سے پرہیز۔
۳) فرشتوں نے اپنی عبادات کا ذکر کیا۔ انسان بھی حق کی پیروی میں رب کی عبادت کرتے ہیں۔ مگر انسان فرشتوں کی طرح خدا کی حضوری میں نہیں جیتا بلکہ اس کے اور خدا کے درمیان غیب کا پردہ حائل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو انسان کی عبادت اور اطاعت کو بہت قیمتی بنا دیتی ہے۔ انسان کے پاس ہمیشہ یہ اختیار رہتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی کرے اور خواہشِ نفس کی پیروی کرے، مگر جب غیب میں رہتے ہوئے وہ ایسا کرنے سے بچتا ہے تو یقیناً اس کی عبادت اور اطاعت کو ایک امتیاز حاصل ہوجاتا ہے جو فرشتوں کی عبادت کو حاصل نہیں ہوسکتا۔