حج کیلئے بچائی ہوئی رقم پر زکوٰۃ ۔ ابویحییٰ
سوال: مجھے اپنے والد کی طرف سے کچھ زمین وراثت میں ملی ہے۔ میں نے اس کی ذمہ داری ایک ٹھیکیدار کو سونپ رکھی ہے۔ وہ ٹھیکیدار وہاں سے ہونے والی آمدنی مجھے سالانہ تین قسطوں میں یعنی ہر چار مہینے بعد ادا کرتا ہے۔ میرے لئے گویا یہ ایک تنخواہ ہے جو مجھے ہر چار مہینے بعد ملتی ہے۔ اور میں اس رقم کو اگلی قسط کے ملنے سے پہلے ہی خرچ کر ڈالتی ہوں۔ اچھا اسی رقم میں سے میں اپنے حج کے اخراجات کیلئے پیسے بھی جمع کر رہی ہوں۔ کیا مجھے سفرِ حج کیلئے بچائی جانے والی اِس رقم پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟ (سلمیٰ رعنا)
جواب: آپ کے سوال سے جو بات ہم سمجھیں ہیں وہ یہ ہے کہ آپ حج پر جانے کے لیے جمع کی جانے والی رقم کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں کہ آیا اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی یا نہیں۔ حج فرض ہی اس شخص کے اوپر ہوتا ہے جس کے پاس اپنی عام ضروریات کے علاوہ حج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم ہو۔ جن لوگوں کے پاس اضافی وسائل نہیں ہوتے وہ اس مقصد کے لیے بچت کرتے ہیں جو یقیناً ان کے جذبے کا اظہار ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اس نیت اور رقم بچانے کے عمل کا ثواب عطا فرمائیں گے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس بچت پر اگر سال گزر گیا ہے تو اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ حج پر جانے کے اخراجات پر عائد ہونے والی زکوٰۃ چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ لہذٰا اسے آپ ادا کر بھی دیں گی تو بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ جیسا کہ ہم نے واضح کیا کہ یہ زکوٰۃ سال گزرنے پر ادا کرنی ہوگی اگر اس سے قبل ہی یہ رقم آپ نے جمع کروا دی تو اب اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔