گمنام سپاہی ۔ فرح رضوان
صدقہ اعلانیہ بھی دیا جا سکتا ہے لیکن اکثر لوگ واقعی اس طرح دیتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں کو خبر نہیں ہوتی، اور ہمیں بھی ان صاحبہ کے منفرد صدقے کی کانوں کان خبر نہ ہو پاتی اگر ان کی ایک ساتھی اس راز سے پردہ نہ اٹھاتیں۔ اللہ تعالیٰ ان خاتون کی کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی مستقل مزاجی اور اخلاص کے ساتھ خلق میں خیر بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
آپ فاطمید فاونڈیشن کے نام اور کام سے تو واقف ہی ہونگے، ماشا اللہ یہ ادارہ پاکستان میں خون کے عطیات اکھٹا کرنے سے لیکر ضرورت مندوں تک پہنچانے تک کا کام بخوبی انجام دے رہا ہے اور سینکڑوں غریبوں کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان خاتون کا اس ادارے سے کیا تعلق ہے؟ کیا یہ اس کی مالی معاونت کرتی ہیں؟ جی نہیں، یہ کوئی امیر اسامی نہیں۔ تو کیا یہ یہاں ڈاکٹر ہیں؟ جی نہیں، یہ اتنی زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ تو کیا یہ اس ادارے میں کسی بھی اور طرح کی نوکری یا خدمت انجام دیتی ہیں؟ جی نہیں، اس ادارے سے براہ راست ان کا کوئی تعلق نہیں۔ تو پھر یہ یقینا بلڈ ڈونر ہونگی؟ جی نہیں، ایسی قابل رشک صحت بھی نہیں ہے ان کی، لیکن ان کا ایمان ماشا اللہ بہت توانا ہے، اور ایک طرح سے یہ صحیح معنوں میں پڑوسی کے حقوق ادا کر رہی ہیں۔
یہ صاحبہ حیدرآباد میں قائم فاطمید کی شاخ کے نزدیک رہائش پذیر ہیں، اور انہوں نے اپنے انتہائی محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے صحن میں ایک پبلک کچن بنایا ہوا ہے اور ضرورت کی تمام اشیاء وہاں پر مہیا کرتی ہیں، اندرون سندھ کے غریب ہاری مزدور طبقے کے افراد کے لیے تو اپنے مریض کے ساتھ سواری کا کرایہ ادا کرنا ہی دشوار ہوتا ہے، اس پر ستم یہ کہ غریب شہرمیں بیچارہ کھائے کیا؟ اور کہاں سے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان خاتون کے دل میں ایسے لوگوں کا خیال ڈال دیا، اب نہ ہی ان کو نت نئے ملبوسات میں کشش محسوس ہوتی ہے، نہ ہی گھر کی سجاوٹ کی بے جان اشیا سے ان کو کوئی لگاؤ رہ گیا ہے، شادی بیاہ پر بھی نمود و نمائش سے بچتی ہیں اور کیونکہ اپنے پوشیدہ صدقے کو سب سے چھپا کر رکھتی ہیں، لہٰذا اپنے سادہ رہنے پر لوگوں کی باتیں بھی خوب سنتی ہیں۔ لیکن ان کا دل اصل میں کتنا کھلا ہے یہ دور دراز سے علاج کی غرض سے آنے والے خوب جانتے ہیں، ان کے گھر کا کچن ہر وقت ان کے لیے کھلا ہوتا ہے خواہ وہ گھر پر ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن! یہ جاتی کہاں ہیں؟ شاپنگ پر؟ نہیں، ابھی تو بتایا ہے ناں کہ اب مصنوعی زندگی سے ان کو لگاؤ نہیں رہا۔ تو socializing؟ نہیں اس کے تقاضے پورے کرنا اب ان کے بس میں نہیں رہا، تو سیر یا واک؟ کسی حد تک کہہ سکتے ہیں لیکن ان کی واک محض ہوا خوری پر مبنی نہیں ہوتی، اور ہر اس شخص کو جسے واقعی زندگی میں اچھے اعمال ذخیرہ کرنے کی عادت ہو جائے اس کا کوئی کام بھی پھر بے مقصد نہیں رہ جاتا۔
ویسے تو کسی کی ٹوہ لینا بہت بری بات ہے لیکن اس وقت ان کے ساتھ چل کر دیکھتے ہیں کہ ان کی واک کہاں جا کر رکتی ہے، یہ کیا! ان کا رخ تو اچانک سے کچے گھروں کی طرف ہو گیا ہے، اوں ہوں جگہ جگہ کچرا، گندی بدبو……. اور کتنی دیر یہ سب جھیلنا ہو گا؟ بس بس وہ دیکھیں یہ ایک جھگی نما گھر میں داخل ہو رہی ہیں، اور یہ کیا! یہ اندر سے اتنی اونچی آواز میں کون گلا پھاڑ کر چلا رہا ہے؟ یہ شخص جو ان پر چیخ رہا ہے یہ نامراد اس گھر میں رہنے والے معذور اور بوڑھے لاچار والدین کا ہٹا کٹا بیٹا ہے، خود تو اپنے والدین کی خدمت سے محروم ہے ہی لیکن جب یہ محترم خاتون یہاں آ کر ان بوڑھے افراد کے کپڑے، بستر وغیرہ صاف کرتی ہیں، یہ یوں ہی چلاتا ہے اور یہ خاموشی سے اپنا کام کر کے چلی آتی ہیں۔
آپ بھی حیران ہیں ناں کہ کیا واقعی ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں! سبقت لے جانے والے، بازی مار لینے والے، اپنے محاز پر ڈٹے رہنے والے اور دوسرے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دینے والے کہ یا اللہ انہوں نے تو جنت کا سودا کر لیا اور سالوں سے اسی ایک کام میں مستقل مزاجی سے لگی ہوئی ہیں اور ہم سالوں سے صرف تمنا تک ہی محدود ہیں کسی بڑی نیکی کی opportunity کسی مہورت کے منتظر، آج فرشتے ہمیں لینے آگئے تو ہم ساتھ کیا لے جا سکیں گے؟
سلام ہے ان خاتون کے جذبے کو……….!
یہ ہیں ہمارے ملک کے گمنام سپاہی جنہیں معلوم ہے کہ وہ اس راہ میں مارے گئے تو نہ ستارہ جراٗت ملے گا نہ ستارہ امتیاز، نہ نشان حیدر نہ ہی توپوں کی سلامی دی جائے گی، لیکن جس ذات پاک کے لیے اخلاص سے یہ خدمت جاری ہے وہاں کیا استقبال ہو گا کیسی تکریم ہو گی کیسا اعزاز ان کا منتظر ہو گا، سبحان اللہ۔