غزل ۔ پروین سلطانہ حناؔ
پروین سلطانہ حناؔ
غزل
بھٹکتے پھر رہے ہیں ہم مسافتوں کے درمیاں
صداقتوں کو ڈھونڈتے، شباہتوں کے درمیاں
کچھ ان دنوں وہ گرد ہے، ہر ایک آنکھ اٹ گئی
دھواں ہوئیں بصیرتیں، بصارتوں کے درمیاں
یہ سورجوں کا بانکپن تو زندگی کی موت ہے
پگھل رہے ہیں جسم و جاں تمازتوں کے درمیاں
ہے آج بھی جو ناتواں، ہے وقت کی صلیب پر
بس ایک آہِ نارسا ہے طاقتوں کے درمیاں
ہر ایک پل، ہر اِک جگہ خدا تو ساتھ ساتھ ہے
پھر اس کو بھولتے ہو کیوں، عدالتوں کے درمیاں؟
کوئی تو آکے نفرتوں کے زہر کو نکال دے
صداقتوں کا قحط ہے، رفاقتوں کے درمیاں
وہ کون سی تھیں ساعتیں کہ دھول میں بدل گیا
وہ پھول جو کھلا ہوا تھا چاہتوں کے درمیاں
یقین گر تمہیں نہیں تو اپنے دل سے پوچھ لو
وہ بات ڈھونڈتے ہو کیوں صراحتوں کے درمیاں
وہ شخص اپنی ذات میں کمالِ بے مثال ہے
عجب ہے گُل کھِلا ہوا، جراحتوں کے درمیاں
جہالتوں کے جسم پر قلم کی تیغ گاڑ دو
ملیں گی تم کو عظمتیں بغاوتوں کے درمیاں
سخن تمہارا دِل نشیں، ہے خو شبوؤں کا جانشین
گلاب سے مہک اٹھے، سماعتوں کے درمیاں
قبائے غم اتار لو، خوشی کا روپ دھار لو
تمہارا نام ہے حناؔ، بشارتوں کے درمیاں