فیصلے کا دن ۔ ابویحییٰ
یہ ایک بڑا سا پوسٹر تھا جس پر لکھا تھا، ’’8 جنوری فیصلہ کا دن‘‘۔ پس منظر میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی بڑی ساری ایک تصویر تھی جس میں ان کا دمکتا اور مسکراتا چہرہ نمایاں طور پر نظر آرہا تھا۔ ان کے چہرے کی روشنی اور مسکراہٹ صاف بتا رہی تھی کہ یہ پاکستان کی آئندہ وزیراعظم کا چہرہ ہے۔ وسیع عوامی تائید، صدر مملکت پرویز مشرف سے ہونے والی ڈیل اور بین الاقوامی تائید کی بنا پر یہ بات یقینی تھی کہ 8 جنوری 2008 کا سورج جب غروب ہوگا تو اگلی صبح بےنظیر کے اقتدار کا سورج بن کر طلوع ہوگا۔
مگر محترمہ کی زندگی میں 8جنوری 2008 کا دن نہیں آیا۔ 27دسمبر 2007 کا سورج جب ڈھلا تو بےنظیر کی زندگی کا سورج اس کے ساتھ ہی غروب ہوگیا۔ ان کی زندگی میں فیصلہ کا دن 8 جنوری نہیں بلکہ 27 دسمبر تھا۔ مگر یہ بات کسی کو بھی معلوم نہ تھی۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی کامیابی اور محرومی کی انتہاؤں سے عبارت رہی۔ وہ ایک جاگیردارانہ پس منظر کے حامل دولتمند خاندان میں پیدا ہوئیں۔ملکی اور بین الاقوامی سطح کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد ملک کے مقبول ترین لیڈر اور وزیراعظم بنے۔ مگر اس کے بعد والد کے زوال، قید اور موت کے مناظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ قید اور جلاوطنی کی صعوبتیں اٹھائیں۔ پھر وطن واپسی پر عوامی مقبولیت، اپنی شادی کی خوشی، اولاد کی نعمت اور دو دفعہ اقتدار کی کامیابیاں دیکھیں۔ مگر اس کے ساتھ اپنے دو جوان سگے بھائیوں کی موت اور بعض قریبی ساتھیوں کی بے وفائی کے المناک مناظر بھی دیکھے۔ اور آخرکار وزیراعظم بننے سے قبل ایک گولی کا نشانہ بن گئیں۔
ہر انسان کی زندگی اس سطح کی نہ سہی، مگر اس جیسی کامیابیوں اور محرومیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ انسان ان سب سے گزر کر ایک روز اپنے رب کے حضور پیش ہوگا۔ یہی اس کے فیصلے کا دن ہوگا۔ جب یہ دیکھا جائے گا کہ زندگی کے مصائب پر اس نے کتنا صبر کیا اور خوشیوں پر کتنا شکر۔
اس دنیا کا کوئی دن فیصلے کا دن نہیں۔ فیصلے کا دن صرف قیامت کا دن ہے۔