پھسلنے والے ۔ ابویحییٰ
غالباً فٹ پاتھ پر کوئی چکنی چیز یا کیلے کا چھلکا کسی غیر ذمہدار شخص نے پھینک رکھا تھا۔ اس لیے جیسے ہی نوجوان نے اس پر قدم رکھا، وہ لڑکھڑا گیا اور پھسل کر گر گیا۔ لمحہ بھر کے لیے وہ حواس باختہ ہوا اور پھر کپڑے جھاڑتا، جسم سہلاتا کھڑا ہوگیا۔ اس منظر کو دیکھ کر کچھ لوگ نوجوان کو سہارا دینے کے لیے آگے بڑھے، کچھ نے تاسف کا اظہار کیا اور کچھ ایسے بھی تھے جن کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
یہ منظر آخری لمحے میں میں نے بھی دیکھا۔ لمحہ بھر کے لیے میرے دل میں ہمدردی کی ایک لہر اٹھی مگر نوجوان کو اٹھتا دیکھ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ لیکن اس کے بعد بے اختیار میرے منہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دعا نکلی جس کے ایک حصے کا مفہوم اس طرح ہے۔
’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ میں پھسل جاؤں یا کسی اور کے پھسلنے کا باعث بنوں۔ ۔ ۔‘‘
اس دعا میں جس پھسلنے کا ذکر ہے وہ یقینا اس نوجوان کا پھسلنا نہیں تھا۔ یہ تو میرا ایک فوری ردعمل تھا۔ لیکن جس پھسلنے کا اس دعا میں ذکر ہے وہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ یہ پھسلنا صراط مستقیم سے پھسلنا ہوتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان شارع زندگی پر سیدھا جا رہا ہو اور اچانک اس کے سامنے اس کا مفاد آجائے، اس کی خواہش آجائے، اس کے جذبات آجائیں، اس کے تعصبات آجائیں۔ انسان لین دین کا معاملہ کر رہا ہو۔ حقوق و فرائض کا تعین کر رہا ہو۔ انسان بات کر رہا ہو، انسان بازار سے گزر رہا ہو، انسان کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہو۔
ان تمام مواقع پر کوئی باطل عمل، کوئی حق تلفی، کوئی فحش منظر، ظلم و نا انصافی کا کوئی موقع، مفاد اور خواہش کا کوئی لمحہ، حرص و لالچ کا کوئی امکان کیلے کے ایک چھلکے کی طرح، چکنائی اور پھسلن کی طرح، کیچڑ اور پانی کی طرح، اس کے راستے میں آتی ہے اور انسان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ وہ ڈگمگاتا ہے اور گر پڑتا ہے۔ مگر یہ وہ مقام ہے جہاں اصل فرق شروع ہوتا ہے۔ کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گرنے کے بعد فوراً اٹھ جائیں، لڑکھڑانے کے بعد فوراً سنبھل جائیں، پھسلنے کے بعد فوراً کھڑے ہو جائیں۔
انسانوں کی اکثریت اس پھسلنے کو انجوائے کرتی ہے۔ ان کا پاؤں جب کیلے کے کسی ’چھلکے‘ پر پڑتا ہے تو بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ان کا ضمیر، ان کا ایمان، ان کی فطرت اور ان کی عقل سلیم انھیں بتا دیتی ہے کہ ہوشیار ہوجاؤ، مگر وہ اس آواز کو نظرانداز کر کے خوشی خوشی پھسلنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے وجود کو کوئی چوٹ نہیں لگتی بلکہ مزہ آتا ہے۔ نفس کو خوشی ہوتی ہے۔ اندر کے حیوان کو تسکین ملتی ہے۔ زخمی اگر ہوتا ہے تو ایمان ہوتا ہے۔ اخلاقی وجود ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس چوٹ کا جتنا کچھ درد ہے اور بلاشبہ بہت شدید درد ہے، وہ قیامت کے دن ظاہر ہوگا اور جب ہوگا تو انسان سر پکڑ کر روئے گا کہ یہ کیا ہوگیا۔ مگر اس دن نہ کوئی سہارا دینے والا ہوگا نہ کوئی تاسف کرنے والا۔
چنانچہ سطح بین اور جلد باز انسان پھسلنے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔ وہ بار بار کیچڑ کے پاس سے گزرتے ہیں تاکہ پھسلنے کا کوئی موقع مل جائے۔ وہ ٹی وی کے چینل بدلتے ہیں، گرلز کالج اور بازاروں کے چکر کاٹتے ہیں، دفتروں میں کسی ضرورت مند سے رشوت کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، دکانوں میں بیٹھ کر اپنی چرب زبانی سے فریب کے جال بنتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ پھسلنے والے نہیں رہتے، گرنے والے نہیں رہتے بلکہ ہمیشہ کے لیے گر جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کی راہ میں چھلکے ڈالنے والے انہیں پھسلنے پر آمادہ کرنے والے، انہیں بھٹکانے والے بن جاتے ہیں۔ یہ سرکشی ہے۔ یہ وہ جرم ہے جس کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جہنم کی آگ اصل میں ایسے ہی لوگوں کے لیے بھڑکائی جارہی ہے۔ مگر جو شخص پہلی دفعہ پھلسنے کے بعد اٹھ جاتا ہے وہ گرنے والوں میں نہیں ہے کیونکہ اس راہ میں وہ بھی نہیں گرا جو گرا پھر سنبھل گیا
اٹھنے کا یہ رویہ، سنبھلنے کی یہ عادت، لوٹ آنے کا یہ راستہ، توبہ کا یہ طریقہ جنتیوں کا طریقہ ہوتا ہے۔ یہ ان کا طریقہ ہوتا ہے جنھوں نے اپنی خواہش، لذت، مفاد اور ضرورت کی مکمل تسکین کے لیے قیامت کے دن تک انتظار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ختم نہ ہونے والی دنیا اور ہمیشہ کے مزوں میں آباد کر دیا جائے گا۔