فہم قرآن کی کنجی ۔ ابو یحییٰ
قرآن کریم رہتی دنیا تک کتابِ ہدایت ہے۔ اس کی ہدایت سے استفادے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات جان لی جائے کہ قرآن کریم میں موجود ہدایت کی نوعیت کیا ہے۔ قرآن کریم اپنے اسلوب کے اعتبار سے ایک بالکل منفرد نوعیت کی کتاب ہے۔ تورات کے احکام عشرہ کی طرح قرآن کریم میں ہدایت کے کوئی آٹھ دس اصول بیان نہیں ہوگئے ہیں۔ اسی طرح یہ کورس میں پڑھائی جانے والی اسلامیات کی کتاب کی طرح بھی نہیں ہے، جس میں اسلام کے حوالے سے مضامین پائے جاتے ہیں۔ یہ کسی عالم کی تحریر کردہ کسی علمی کتاب کی طرح بھی نہیں ہے، جس میں ایک ترتیب سے اسلامی عقائد و عبادات پر بحث کر کے ان کی حقانیت ثابت کی جاتی ہے۔
قرآن کریم دراصل اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشتِ انذار ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہیے کہ یہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخاطبین کے درمیان ہونے والی جدوجہد کا ریکارڈ ہے۔ صورتحال یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ آپ کی قوم یعنی قریش مکہ کے سامنے توحید و آخرت کی دعوت رکھی۔ ماننے والوں کو جنت کی خوشخبری دی اور جھٹلانے والوں کو اپنے عذاب سے ڈرایا۔ جنت، جہنم اور قیامت کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اللہ کی ذات، صفات اور اس کے حقوق کو لوگوں پر واضح کیا۔ توحید و آخرت کی اس دعوت کے دلائل انفس و آفاق کی نشانیوں سے پیش کیے۔ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا۔ اہل کتاب کے پیدا کردہ شبہات کو دور کیا۔ منکرین کے سوالات کا جواب دیا۔ مشرکین کی بدعتوں اور ان کے اوہام سے پردہ اٹھایا۔ مخالفین کی ایذا رسانی پر مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے اخلاقِ حسنہ کو سراہا۔ مشرکین کی اخلاقی خرابیوں کو بے نقاب کیا۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رسول بھی تھے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ قوم اگر رسول کا انکار کرتی ہے تو بات واضح ہونے کے بعد، اس پر دنیا ہی میں عذاب آجاتا ہے جبکہ ماننے والوں کو عذاب سے بچا کر دھرتی کا اقتدار دے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے بار بار آپ کی قوم کو خدا کے اس عذاب سے ڈرایا جو قیامت سے پہلے اس دنیا ہی میں ان پر نازل ہوسکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے پچھلے رسولوں کی داستان سنا کر یہ بتایا گیا کہ جس طرح نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب، موسیٰ علیہم السلام اجمعین اور دیگر رسولوں کی قوموں پر دنیا ہی میں عذاب آیا ہے، اسی طرح قریش پر بھی ان کے انکار کی پاداش میں عذاب آکر رہے گا۔ 13 برس تک یہ جدوجہد جاری رہی یہاں تک کہ اتمام حجت ہوگیا یعنی ہدایت واضح ہوگئی۔ چنانچہ قریش پر عذاب کا فیصلہ ہوگیا۔ اللہ کے حکم سے آپ نے ہجرت فرمائی اور اپنے صحابہ سمیت مدینہ تشریف لے آئے۔ آپ کو چونکہ ایک قابل قدر تعداد میں ساتھی مل گئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارضی و سماوی آفت کے بجائے کفار کو صحابہ کرام کی تلواروں سے عذاب دینے کا فیصلہ کیا۔ جنگ بدر میں یہ عذاب نازل ہوا اور قریش کی پوری قیادت کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس طرح رسولوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کے قانون کا یہ حصہ نافذ ہوگیا کہ جس میں کفار کو دنیا ہی میں عذاب دیا جاتا ہے۔ البتہ اس قانون کا ایک دوسرا حصہ ابھی باقی تھا۔ وہ یہ کہ رسولوں پر ایمان لانے والوں کو نہ صرف اس عذاب سے بچایا جاتا ہے بلکہ انہیں دنیا میں بھی عروج و غلبہ دے دیا جاتا ہے۔
چنانچہ مدینہ میں آنے کے بعد صحابۂ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا ظہور شروع ہوا۔ اور صرف آٹھ سال بعد حرم پاک سمیت پوری سرزمین عرب پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کا غلبہ ہوگیا۔ اس عمل میں سرزمین عرب کے مشرکین سے جنگیں لڑی گئیں، مدینہ پاک میں موجود اہل کتاب سے معاملات پیش آئے۔ منافقین کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قرآن پاک ان سب پر تبصرے کرتا ہے۔ قدم قدم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے تزکیہ کے لیے شریعت دینا شروع کرتا ہے، یہاں تک کہ دین کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ ان سب کے ساتھ قرآن بار بار توحید و آخرت پر مبنی اپنی دعوت کو دہراتا رہتا ہے۔
قرآن کریم کا ایک قاری جب اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو یہ مضامین نکھر کر سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس کے لیے قرآن مجید کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک اور اہم بات ہے جسے سمجھ لینا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کریم کے جن مضامین کی تفصیل ہم نے اوپر بیان کی ہے، اس کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول قرآن کریم کی ایمان و عمل صالح پر مبنی دعوت اور اس کی تفصیلات۔ دوسرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم پر اتمام حجت، اس کے مباحث اور اس کے نتیجے میں آنے والا عذاب۔ یہ دونوں چیزیں قرآن پاک میں بالکل ساتھ ساتھ بیان ہوئی ہیں اور ایسا ہونا ناگزیر بھی تھا۔ اس لیے کہ ایمان و عمل صالح کی ابدی دعوت جن لوگوں کو دی جا رہی تھی وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطبین بھی تھے۔ لیکن یہ بات جب ایک عام قاری پر واضح نہیں ہوتی تو قرآن پڑھتے ہوئے بہت سے سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہوتے اور بہت سی غلط فہمیاں اسے لاحق ہوجاتی ہیں۔
مثلاً ایک پڑھنے والا دیکھے گا کہ قرآن مجید کے بعض مقامات پر یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے، مگر دوسری طرف اسی قرآن میں ان کی خواتین سے شادی جائز قرار دی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان سے دوستی جائز نہیں تو شادی کا رشتہ جو زیادہ مضبوط اور محبت کا تعلق ہے اس کے قائم کرنے کی اجازت کیوں ہے؟ جواب یہ ہے کہ شادی کی بات ابدی شریعت کا ایک اصول ہے جبکہ دوستی کی ممانعت ان یہود و نصاریٰ سے ہے جن کا بغض بالکل کھل کر سامنے آگیا تھا۔ یہ بات سیاق و سباق سے بالکل واضح ہوجاتی ہے۔
اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں۔ قرآن کریم میں شرک اور اس کی تمام چھوٹی بڑی اقسام کی برائی بیان ہوئی ہے۔ یہ اس کی ابدی دعوت کا ایک پہلو ہے جو ہر حال میں ہم سے متعلق ہے۔ مگر ساتھ ہی قرآن میں یہ بیان بھی ملے گا کہ مشرکین کو جہاں پاؤ مار ڈالو۔ اس بات کا تعلق ابدی دعوت سے نہیں بلکہ اس اتمام حجت سے ہے جس کے بعد مشرکین عرب پر عذاب کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ یہ حکم صحابۂ کرام کو دیا گیا تھا اور قرآن مجید کا سیاق و سباق اس بات کو اچھی طرح واضح کر دیتا ہے۔ ایک عام شخص کے لیے جائز نہیں کہ قرآن کے اس حکم کو لے کر اپنے پڑوس میں رہنے والے کسی ہندو یا عیسائی کو مار ڈالے۔
قرآن مجید کے ہر قاری کو جو سمجھ کر قرآن پاک کو پڑھنا چاہتا ہے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس طرح کی باتوں کا تعلق براہ راست اس سے نہیں ہے۔ اگر اسے کبھی کوئی شبہ پیدا ہو تو چاہیے کہ ایک یا ایک سے زیادہ اچھے اور صاحب بصیرت عالم سے رجوع کرے یا ان کی تفسیر دیکھ لے۔ یہ اصول فہم قرآن کی کنجی ہے جسے نہ سمجھنے کے نتیجے میں کتاب الہی سے متعلق بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور بدقسمتی سے دور جدید میں پیدا ہوئی ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر یہ سوال کیا جائے کہ اگر یہ چیزیں عام لوگوں سے متعلق نہیں تو انھیں قرآن پاک میں رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ یہ مباحث اس اعتبار سے بڑے اہم ہیں کہ یہ قرآن کی سچائی اور اس دعوت کا زندہ ثبوت ہیں جو وہ توحید و آخرت کے حوالے سے دنیا کے سامنے رکھتا ہے۔ اس لیے کہ ایک رسول کی قوم پر آنے والا عذاب اور اس کے ساتھیوں کو ملنے والا غلبہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ساتھ یہی کریں گے۔ جنہوں نے اس دعوت کو مانا وہ جنت کی بادشاہی کے مستحق ٹھہریں گے اور جو منکر ہوئے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔