ایمان، حج اور جہاد ۔ ابویحییٰ
ذوالحجہ کا مہینہ حج کا مہینہ ہے۔ یہ عظیم عبادت جو اسلام کے بنیادی اراکین میں سے ایک رکن ہے، زندگی میں ہر صاحب استطاعت مسلمان پر ایک دفعہ فرض ہے۔ امام بخاری اپنے صحیح کی کتاب الایمان میں ایک روایت لائے ہیں جو اس بات کا بہترین بیان ہے کہ دین اسلام میں حج کی کیا اہمیت ہے:
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے۔ فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان۔ کہا پھر کون سا عمل؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد۔ پھر پوچھا گیا پھر اس کے بعد تو فرمایا: حج مبرور۔‘‘، (بخاری، رقم:26)
یہ حج مبرور کیا ہے؟ اس کو ایک دوسری روایت میں اس طرح واضح کیا گیا ہے:
’’جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، پھر اُس میں کوئی شہوت یا نافرمانی کی بات نہ کرے تو وہ حج سے اِس طرح لوٹتا ہے، جس طرح اُس کی ماں نے اُسے آج جنا ہے۔‘‘، (بخاری ، رقم:1819)
اس حج مبرور کا بدلہ ایک روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے۔
’’عمرے کے بعد عمرہ اِن کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور سچے حج (حج مبرور) کا بدلہ تو صرف جنت ہی ہے۔‘‘ (بخاری ،رقم:1773)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے حج دین ابراہیمی کی سب سے جامع عبادت ہے جسے تمام عبادات کا منتہائے کمال کہنا کوئی مبالغہ نہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کوئی عالم ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر وہ شخص جس نے زندگی میں یہ سعادت حاصل کر رکھی ہو وہ اپنے تجربے سے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بندہ مومن صرف اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کے طریقے پر اپنی جان پر دکھ جھیلتا، مال کو خرچ کرتا، گھر، وطن اور رشتے ناطوں کی دوری سہتا، احرام کی سخت پابندیاں خود پر لگاتا ہوا صرف اللہ کی رضا کے لیے اس کے گھر پر حاضر ہوتا اور مناسک حج ادا کرتا ہے۔ یہی وہ قربانی ہے جو ایمان اور جہاد کے بعد حج مبرور کو سب سے بڑا عمل بنا دیتی ہے۔
تاہم ان سب کے ساتھ حج کو حج بنانے والی چیز یہ حقیقت ہے کہ حج دراصل جہاد کی تمثیل ہے۔ یہ اس جنگ کی تمثیل ہے جس کا اعلان روز ازل شیطان نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ لاغوینھم اجمعین یعنی میں ان سب کو گمراہ کرکے دم لوں گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی شیطان اور ذریت شیطان کی آدم اور اولاد آدم کے ساتھ ختم نہ ہونے والی جنگ شروع ہوگئی۔ بدقسمتی سے ہر دور میں انسانوں کی اکثریت اس جنگ میں اپنے باپ آدم علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے شیطان کے ساتھ جاکر کھڑی ہوجاتی ہے اور اس کی طرف سے جنگ شروع کر دیتی ہے۔ ایسے میں ایمان کا قلادہ گلے میں ڈالے اور اطاعت کا عہد کیے ہوئے سچے مسلمان خدا کی طرف جنگ کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ خواہشات کے تیروں اور شہوات کے شیطانی نیزوں کا مقابلہ صبر کی آہنی ڈھال سے اور تعصبات کی ہر فصیل کو حق پرستی اور سچائی کی تلوار سے فتح کر لیتے ہیں۔ حج ایسے ہی لوگوں کے لیے گویا ایک تربیتی کورس ہے۔
یہ مومن ابراہیمی صدا پر لبیک کہتے اور دنیوی زیب و زینت اور لطافت کو ترک کرکے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا پڑاؤ منیٰ کے فوجی کیمپ میں ہوتا ہے۔ پھر عرفات میں امام کے خطبے کی شکل میں لشکر کشی سے پہلے وعظ و نصیحت اور اللہ سے دعا و زاری کا اہتمام ہوتا ہے۔ سفر جہاد کی تمثیل میں نمازیں جمع و قصر کرتے ہوئے یہ لشکر مزدلفہ پہنچتا ہے۔ اور صبح دم اپنے رب کو یاد کرتا ہوا غنیم پر جاپڑتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جسے مناسک حج کی اصطلاح میں رمی جمار یا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل کہتے ہیں۔ اس پہلے حملے کے ساتھ ہی قربانی دے کر خود کو رب کی راہ میں قربان کر دینے کا عزم کرتے، سرمنڈوا کر اس کا شرف غلامی حاصل کرتے اور اس کے گھر کا طواف کرکے اس کو مرکز زندگی بنا کر اپنی زندگی گزارنے کا عزم کرتے ہیں۔
پہلے دن صرف پہلے بڑے شیطان پر اور اگلے دو یا تین دن تک تینوں شیطانوں پر یہ مومنانہ سنگ باری حملے جاری رہتے ہیں۔ یہ تین شیطان بھی دراصل ان تین چیزوں کی علامت ہیں جہاں سے انسان سب سے زیادہ گمراہ کیا جاتا ہے۔ پہلا ابلیس اور اس کی ذریت۔ یہ سب سے بڑی شیطانی قوت ہے۔ دوسری انسان کا اپنا نفس جو اگر خود پر غالب آجائے تو شیطان کا سب سے بڑا ساتھی بن جاتا ہے۔ تیسرا انسان کا ماحول اور اس میں پائی جانے والی شیطانی ترغیبات۔ یہی وہ تین مقامات ہیں جہاں انسان کو زندگی بھر شیطانی وسوسہ انگیزیوں کے خلاف لڑتے رہنا ہوتا ہے۔ اس سنگ باری کے بعد یہ مجاہد اس عزم کے ساتھ گھروں کو لوٹتے ہیں کہ زندگی بندگی میں گزرے گی اور شیطان کا ازلی چیلنج پورا نہیں ہوگا کہ خدا بندے کو شکر گزار نہیں پائے گا۔
بدقسمتی سے دور حاضر میں لوگ بڑی تعداد میں حج کرنے تو جاتے ہیں، مگر انہیں حج کی یہ حقیقی اسپرٹ نہیں بتائی جاتی۔ چنانچہ وہ اسے مناسک کا ایک مجموعہ سمجھ لیتے ہیں جسے برے بھلے طریقے پر ادا کردیا جاتا ہے۔ بلاشبہ مالی اور بدنی طور پر قربانی دے کر جب حج کیا جائے تو اس کا اپنی جگہ بڑا اجر ہے، مگر جب لوگ اسپرٹ سے واقف نہیں ہوتے تو پھر ان کی زندگی میں وہ حقیقی اسپرٹ پیدا نہیں ہوتی۔ وہ اکثر اوقات اسے گناہ بخشوانے کا ایک سفر سمجھتے ہیں اور واپس آکر وہی شیطان کی پیروی کی زندگی گزارنے لگتے ہیں جیسی وہ پہلے گزار رہے تھے۔
لیکن اسپرٹ اگر بار بار دہرائی جائے تو انسان کا حج صرف ایک سفر نہیں رہتا بلکہ یہ زندگی کا ایک نیا آغاز بن جاتا ہے۔ وہ آغاز جس کی آج ہمارے معاشرے کو سب سے بڑھ کر ضرورت ہے۔