دو مشکل باتیں ۔ کوکب شہزاد
جونہی ہم ذہنی بلوغت کو پہنچتے ہیں، ہمیں دو انتہائی مشکل اور پیچیدہ باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک کا تعلق ضمیر کے ساتھ ہے اور دوسرے کا آنکھوں کے ساتھ۔ ان دونوں کی کشمکش میں فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور فیصلہ بدلتا رہتا ہے۔ انتہائی مضبوط قوّت فیصلہ اور اللہ پر یقین ہی صحیح فیصلہ کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ جہاں تک ضمیر کا تعلق ہے تو اس معاملے میں اپنے شعور کو بیدار رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامہ میں فرمایا ہے کہ اس نے انسان کے اندر نفس بنایا اور اسے نیکی اور بدی دونوں کا شعور دیا۔ البتہ یہ زندگی آزمائش کے لیے ہے۔ نیکی کی طرف بلانے کے لیے اللہ کے رسول اور نبی مستقل آتے رہے اور گمراہی کی طرف بلانے کے لیے شیطان کے داعیات ہر طرف موجود ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا تو فرشتوں اور جنوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو تعظیم کا سجدہ کریں۔ فرشتوں نے تو فوراً سجدہ کر دیا لیکن شیطان تکبر کا شکار ہوگیا اور اس نے کہا کہ مجھے آگ سے بنایا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ لہٰذا میں آدم کو سجدہ نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکم عدولی کی بنا پر اسے دور ہونے کا حکم دے دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنی سرکشی پر معافی مانگتا اور توبہ کرتا۔ مگر وہ اپنی ڈھٹائی پر مصر رہا اور اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اسے مہلت دے کہ وہ انسان کو دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سے گمراہ کرے اور ان سے جہنم کو بھر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی اور فرمایا کہ میرے اچھے لوگ تیرے چنگل میں نہیں آئیں گے۔ اب یہ کشمکش جاری ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے اپنی طرف بہکانے کی کوشش کی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی کہ میں اپنے مالک کے ساتھ خیانت نہیں کرنا چاہتا۔ ان کے دل سے نکلی ہوئی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا اور انھیں گناہ سے بچا لیا۔ جہاں تک آنکھوں سے متعلق بات کا تعلق ہے تو مخالف جنس کو دیکھنے اور اس کو گھورنے کے معاملے میں غض بصر یعنی نظروں کو جھکا کر رکھنا چاہیے۔ کسی بھی غیراخلاقی حرکت کی ابتدا آنکھ سے ہوتی ہے اور اگر کنٹرول نہیں کیا جائے تو زنا تک پہنچ جاتی ہے۔
ہمارے دین کا مقصد تزکیہ نفس پیدا کرنا ہے اور روحانی پاکیزگی حاصل کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے دل کے فیصلوں اور آنکھوں کی پہنچ کی حفاظت کریں اور انھیں اللہ کی حدود کے اندر رکھیں تو اللہ تعالی کی طرف سے ابدی بادشاہی کے حق دار بن جائیں گے۔ یہ دنیا عارضی اور وقتی ٹھکانہ ہے۔ یہاں کی کسی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مقابلہ اگر کرنا ہے، دوڑ اگر لگانی ہے تو اس عارضی چمک دمک میں نہیں بلکہ اصل زندگی میں مقابلہ کریں۔ ہر منفی خیال شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ وہ ہمیں ناکام و نامراد کرکے اپنا انتقام لے سکے۔