دو بنیادی غلطیاں ۔ ابویحییٰ
دنیا بھرمیں دہشت گردی کے خلاف ایک شدید مہم چل رہی ہے۔ نیوزی لینڈ میں نماز جمعہ ادا کرنے والے درجنوں مسلمانوں اور سری لنکا میں ایسٹر کی تقریب کے دوران میں خود کش حملوں کا نشانہ بننے والے سیکڑوں مسیحیوں کے قتل کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف سخت سے سخت اقدام اٹھا رہی ہے۔ ہمارا وطن عزیز بھی ایک طویل عرصے تک دہشت گردی کا نشانہ رہا ہے اور ابھی بھی وقفے وقفے سے دہشت گردی کی وارداتیں ارض وطن کے گلی کوچوں کو خون سے رنگین کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ خود ہمارے ہاں دہشت گردی کے خلاف عام لوگوں میں ایک شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
تاہم دہشت گردی کے خاتمے میں ایک بنیادی چیز کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ دہشت گردی کرنے والے افراد کی حیثیت عام طو رپرروبوٹ کی سی ہوتی ہے۔ یہ روبوٹ ایک کے بعد ایک پیدا ہوتے رہیں گے۔ جب تک کہ ان کو تیار کرنے والی فیکٹری کو بند نہیں کیا جاتا۔ یہ فیکٹری نفرت، تعصب اور انتہا پسندی پر مبنی وہ ذہن ہے جس کے حاملین کسی بھی جگہ، کسی بھی ادارے میں اور کسی بھی طبقے میں اطمینان کے ساتھ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔
نفرت پر مبنی اس ذہن کی دو بنیادی اساسات ہیں جن کی غلطی واضح کرنا ضروری ہے۔ اس ذہن کی پہلی غلطی یہ ہے کہ یہ ذہن پیغمبری کا دعویٰ تو نہیں کرتا مگر عملی طور پر خود کو پیغمبری کے منصب پر فائز ضرور سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دین جس طرح اس نے سمجھ لیا، اس کو سمجھادیا گیا وہ حرف آخر ہے۔ اس کا فہم غلط نہیں ہوسکتا۔ اس کی فکر ہر خطا سے پاک ہے۔ اس کا نقطہ نظر واحد حق ہے۔ غلطی، خطا بلکہ باطل پر دوسرے کھڑے ہیں۔ اپنے حق ہونے کا یہ یقین جو خدا کی دنیا میں صرف اور صرف انبیا علیہم السلام اور ختم نبوت کے بعد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے، ایسے لوگ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور پھر دوسروں کے باطل ہونے اور ان کے گمراہ ہونے کا فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔
اس ذہن کی دوسری غلطی یہ ہے کہ یہ ذہن اس بات کو نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس نے خود لوگوں کو یہ حق دیا ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہیں اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھاتے ہیں، انھیں پکڑتے نہیں۔ چنانچہ لوگ شرک کرتے ہیں، بدعات میں مبتلا ہوتے ہیں، گمراہی کا شکار ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ ان کو موت تک مہلت دیتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کا فیصلہ روز قیامت کریں گے۔ وہ یہ حق کسی اور کو نہیں دیتے کہ وہ لوگوں کے حق و باطل کا فیصلہ کرے اور پھر ان کے کفر و شرک کی بنیاد پر اس دنیا میں لوگوں پر کوئی سزا نافذ کرے۔
انھوں نے کبھی کسی قوم کو سزا دی ہے تو اسی وقت جب اس کے رسول دنیا میں موجود ہوتے ہیں اور وحی کی روشنی میں ان کے ماتحت خدا کی حکومت قائم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی سزا کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے یہ ذہن ان سارے حقائق سے ناواقف رہتا ہے۔ مگر حال یہ ہوتا ہے کہ وہ پورے اعتماد اور یقین سے گفتگو کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کی زبان شعلے اگلتی ہے۔ وہ اپنے الفاظ سی نفرت کے تیر برساتے ہیں۔ وہ کسی کو کافر قرار دیتے ہیں۔ کسی کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نیت پر حملے کرتے ہیں۔ ان کی موت کے پروانے جاری کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی وہ رویہ ہے جو معاشرے میں پہلے نفرت اور پھر دہشت گردی کو جنم دیتا ہے اور انھی چیزوں نے آج اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کر رکھا ہے۔
یہ وہ دو بنیادی غلطیاں ہیں جو اگر واضح ہوجائیں تو نفرت اور انتہا پسندی کی علمی اساس ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد صرف جذباتیت بچتی ہے جس کی علم کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔