دیانت داری ۔ ابویحییٰ
دیانت داری (honesty) کا وصف کسی معاشرے کی زندگی کا ضامن ہے۔ دیانت دار انسان وہ ہوتا ہے جو جھوٹ اور فریب سے پاک ہو اور اپنے اوپر عائد ذمہ داری کو پوری صلاحیت استعمال کر کے ویسے ہی نبھائے جیسے اسے نبھائے جانے کا تقاضا ہو۔ دیانت داری اسی آخری چیز کا نام ہے اور لوگ اسی سے بچنے کے لیے لوگ جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہیں۔
اس پیمانے پر اگر جانچا جائے تو ہم میں سے بیشتر لوگ دیانت داری کے وصف سے کلی یا جزوی طور پر خالی ہیں۔ صرف اخلاقی بنیادوں پر اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھانے والے لوگ ہمارے معاشرے میں کم ہی ملتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نمونہ سرکاری ملازمت کا شعبہ ہے جہاں ملازموں کو ملا ہوا تحفظ اور ان کی کارکردگی جانچے بغیر محض سینیارٹی کی بنیاد پر ان کی تنخواہ میں مسلسل اضافہ ملازموں کو اس بات سے بے نیاز کر دیتا ہے کہ وہ اخلاقی بنیادوں پر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ جس کے بعد لوگ جھوٹ اور فریب کو استعمال کر کے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں۔ اس کا اگلا مرحلہ کرپشن یا بددیانتی کا ہے جس میں لوگ مالی منفعت کے لیے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے یا اسے رشوت، کمیشن اور بدعنوانی سے مشروط کر دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر وہ شعبہ جہاں کوئی براہ راست نگرانی نہ کرے یا پھر کسی کی پکڑ کا خوف نہ ہو وہاں دیانت داری عنقا ہوچکی ہے۔ یہاں عام لوگ شاید کرپٹ نہ ہوں مگر باتیں بنا کر، جھوٹ بول کر اور فریب دے کر اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کا کام ایک مزدور سے لے کر تاجر تک سب ہی کرتے ہیں۔ یہ وہ دیمک ہے جو ہمارے معاشرے کو تیزی سے کھا رہا ہے۔
اگر ہمیں اپنے معاشرے کو تباہی سے بچانا ہے تو دیانت داری کے وصف کو پوری طرح اپنانا ہوگا۔ ورنہ دیمک زدہ لکڑی چاہے باہر سے کیسی ہی مضبوط لگے، آخرکار کھوکھلی ہوکر گر جاتی ہے۔