دل کی بورنگ ۔ پروفیسر محمد عقیل
آج کل کراچی میں پانی کی قلت ہے جس کی بنا پر لوگ اپنے گھروں میں بورنگ کروا رہے ہیں۔ یہ بورنگ اوزار کی مدد سے زمین میں کی جاتی ہے اور ڈرلنگ کے ذریعے زمین کی تہہ میں اس سطح تک پہنچا جاتا ہے جہاں پانی موجود ہو۔ اس کے بعد موٹر کے ذریعے پانی حاصل کرلیا جاتا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بورنگ ناکارہ ہوتی جاتی ہے۔ اور اس سے پانی کا حصول ممکن نہیں رہتا۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
ایک وجہ تو پانی کے لیول کا نیچے چلا جانا ہے جس کی بنا پر سوتے خشک پڑ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ بورنگ کی نالی میں کچھ رکاوٹ پیدا ہو جانا ہے۔ بعض اوقات وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سیورج کا پانی مکس ہوجاتا ہے جس کا استعمال مضر صحت ہوتا ہے۔ بہر حال وجہ کچھ بھی ہو، ناکارہ بورنگ سے پانی کے حصول کی کوشش ایک نامناسب اور بعض اوقات نقصان دہ عمل ہے۔ اگر صاف پانی حاصل کرنا ہے تو نئے سرے سے پانی کے سوتوں تک رسائی حاصل کرنی لازمی ہے۔
پانی کی بورنگ کی طرح روحانیت اور تعلق باللہ کی بھی بورنگ ہوتی ہے۔ بعض اوقات جب ہم اپنے دل کا تعلق اللہ سے جوڑ لیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ساری زندگی یہ تعلق ایسے ہی قائم رہے گا اور اس کنکشن سے بغیر کسی محنت و صفائی کے روحانی غذا ملتی رہے گی۔ بعض اوقات ہمیں یہ غلط فہمی بھی ہوجاتی ہے کہ ہم تو اللہ کی بندگی میں آگئے ہیں اب تزکیہ و تربیت کی کیا ضرورت؟ کبھی ہمارا دل ہمیں تکبر کا راستہ دکھا کر یہ سکھاتا ہے کہ ہم اب علم و عمل میں طاق ہوگئے ہیں اور اب ہمارا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ کبھی ہمارا نفس تن آسانی کا شکار ہوکر محنت چھوڑ دیتا ہے تو کبھی زمانے کی گردشیں ہماری راہ کھوٹی کرنے پر تل جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ کنکشن شیطان کی دراندازی، نفس کی حملہ آوری کی بنا پر کمزور ہوتا رہتا اور بالآخر ناکارہ ہوجاتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا تعلق اللہ سے کمزور ہونے لگتا ہے، اور آہستہ آہستہ ہم شیطان کے فریب میں باآسانی آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنی انا کے زعم میں تکبر کرنے کے ساتھ ساتھ خدا کی حکم عدولی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی راہ سے دور ہو چکے ہیں۔ ہم لاعلم ہوتے ہیں کہ ہماری روحانیت کے سوتے خشک ہوگئے، ہماری بورنگ میں غلاظتوں کی آمیزش ہوچکی، ہمارا تعلق باللہ کے کنکشن کا پائپ چوک ہوچکا۔
یہ معاملہ زیادہ تر ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو دین کا کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ دوسروں کو دعوت و تبلیغ دینے کی مصروفیت میں خود کو بھول چکے، دوسروں کو راستہ بتاتے بتاتے خود ہی راہ راست سے ہٹ گئے، دوسروں کو آگ سے بچاتے بچاتے اپنے دامن کو آگ کے شعلوں کی نذر کر چکے۔
بس ہمیں ہر لمحے اپنے تعلق باللہ کے کنکشن کا جائزہ لیتے رہنا ہے، اس کی لیکیج (Leakage) پر نگاہ رکھنی ہے، اس کے سوتے تر رکھنے ہیں۔ اور اگر ہم ذرا بھی نوٹ کریں کہ ہماری بورنگ خشک پڑ رہی ہے تو نئے سرے سے کھدائی کریں، اگر تعلق باللہ کا لیول پہنچ سے باہر ہورہا ہو تو کھدائی کو اور گہرا کریں۔ اگر روحانیت سے سرچشموں میں گندگی کی آمیزش شامل ہورہی ہو تو تزکیہ نفس سے اسے پاک کریں۔
روحانی بورنگ کا نیا کنکشن لینے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ سیزنل ہے یعنی موسم اور ماحول کے ذریعے تعلق باللہ قائم کیا جائے۔ چنانچہ رمضان میں یہ موقع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ذوالحج میں شیطان کی دراندازیوں کو جاننا اور ان سے بچنے کا طریقہ سیکھنا ایک اور اہم موقع ہے۔ بعض اوقات یہ ماحول کسی مصیبت، رنج، الم یا آفت کے نتیجے میں مل جاتا ہے جس کے ذریعے تعلق باللہ کے خشک سوتوں کو تر کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا طریقہ کثرت عبادت ہے۔ نمازوں کی کثرت خاص طور پر تہجد کی نماز، نفلی روزے، عمرے، قربانی، انفاق وغیرہ اللہ سے کمزور تعلق کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی خدمت، ان کے ساتھ احسان کا رویہ اور ان کی مدد اللہ سے تعلق کا سبب بنتی ہے۔ کبھی کبھی علم کی کمی کو دور کرنا، اللہ کے نیک بندوں کی صحبت، عمل کو بہتر بنانا یا بنانے کی لگاتار کوشش کرتے جانا، برائیوں کو ترک کرنا، اچھائیوں کو اپنانا اس راہ میں اکسیر کا کام کرتا ہے۔
سب سے بڑھ کر دعا، توکل، تفویض و رضا وہ ماسٹر کی (Master key) ہے جس سے خشک سوتے تر ہوجاتے اور وہاں تعلق باللہ کے تازہ چشمے ابل پڑتے ہیں۔ دعا کے ذریعے ہم خدا سے مدد مانگتے، اس کے آگے خود کو ڈال دیتے، اپنے عجز کا اظہار کرتے اور اس سے اپنے تعلق کی تجدید کرتے ہیں۔ توکل سے ہم اس پر بھروسہ رکھتے ہوئے پراعتماد رہتے ہیں کہ اس راہ میں شیطان اور نفس کی چالوں کو ہم اللہ کی نصرت سے شکست دے لیں گے۔ تفویض کے ذریعے ہم اپنے ناقابل کنٹرول امور کو اللہ کو سونپ دیتے اور آخر میں خدا کی ہر قضا پر راضی رہنے کا عہد کر لیتے ہیں۔
آئیے ہم سب جائزہ لیں کہ ہمارے دل کی بورنگ کے سوتے خشک تو نہیں ہوگئے۔