دل کا قبرستان ۔ ابویحییٰ
ساون کی رت آئی اور آسمان نے بادلوں کی ردا اوڑھ لی۔ ہوا کی خنکی نے پیاسی زمین کو پیام زندگی بھیجا اور ابر رحمت نے برسنا شروع کر دیا۔ تپتی ہوئی دھرتی کا آنچل تر ہوگیا۔ نرم زمین کا سینہ شق کر کے کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ پھر یہ مٹیالا آنچل سبز ہوگیا۔ مردہ زمین زندہ ہوگئی۔
وہ کہتا ہے کہ میں ایسے ہی ایک روز ہر مردہ کو زندہ کر دوں گا۔ پھر ہر نفس کے ایک ایک لمحہ زندگی کا حساب کروں گا۔ وہ غلط نہیں کہتا۔ جو مردہ زمین کو زندہ کرسکتا ہے، وہ مردہ انسانوں کو بھی اٹھا سکتا ہے۔ جو بارش کے ہر قطرہ اور درخت کے ہر پتے کو گن سکتا ہے، وہ زندگی کے ہر لمحہ کا حساب بھی کرسکتا ہے۔
بندے نے سرسبز زمین کو دیکھا، نظر اٹھائی اور کہا، ’’ تجھے معلوم ہے کہ مردے صرف زمین ہی میں دفن نہیں ہوتے۔ ایک قبرستان اور بھی ہوتا ہے۔ یہ خواہشوں کا قبرستان ہے جو بندۂمومن کے سینے میں جنم لیتا ہے۔ اس قبرستان میں کتنی امنگیں، کتنی خواہشیں، کتنے خواب اور کتنی رنگینیاں صرف تیرے لیے دفن کی جاتی ہیں۔ کیا تو اُس دن اِن کو بھی زندہ کرے گا؟‘‘
’’تمھارے سینے کی ہر خلش کو ہم کھینچ لیں گے‘‘(الاعراف43:7)۔ آسمان کی جگہ قرآن نے جواب دیا۔ کیونکہ اب قیامت تک قرآن ہی نے بولنا ہے۔ شیطان نے دیکھا کہ بات بن رہی ہے تو وہ بات بگاڑنے آگیا۔سوالات کا ایک انبار اس کے سامنے رکھ دیا۔ بندہ پھر بندہ ہے۔ سوالات کے طوفان میں اس کی کشتی ڈولنے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس کی جنت خدا بنائے گا۔ بہت خوب بنائے گا، مگر اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے بنائے گا۔ تو پھر میری مرضی اور میری خواہش کا کیا ہوگا۔ دیر تک جواب نہ ملا تو خاموشی سے سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔
’’مگر اسی لمحے ایک جھونکا آیا اور اپنے نرم لمس میں یہ پیغام چھوڑ گیا۔ جنت ہماری ہوگی، مگر مرضی تمھاری ہوگی۔ ہمیں اپنے بندوں کو نہ کہنے کی عادت نہیں۔ اور ہماری راہ میں کسی اگر اور مگر کی دیوار بھی نہیں آسکتی۔ وہاں جو تمھارا جی چاہے گا، ملے گا اور جو مانگو گے، پاؤ گے‘‘(29:89,32:41)۔
بندے نے سنا اور دل کے قبرستان میں مزید قبریں بنانے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔