دایاں ہاتھ ۔ ابویحییٰ
ہالینڈ کے سائنسدانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی خواتین کی شرح اموات مختلف وجوہات کی بنا پر دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی بنسبت 40 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ ان وجوہات میں کینسر، دل کے امراض اور دماغ کو خون کی فراہمی میں رکاوٹ شامل ہے۔ مزید یہ بھی کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد جو دنیا کی کل آبادی کا دس فیصد ہیں، ان کی اوسط عمر بھی دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
یہ رپورٹ پڑھنے والے کو دین کی اس تعلیم کی یاد دلاتی ہے جس کے مطابق ہر مسلمان کے لیے یہ سنت مقرر کی گئی ہے کہ وہ کھانا کھائے تو سیدھے ہاتھ سے کھائے اور اللہ کا نام لے کر کھائے۔ یہی نہیں بلکہ زندگی کے دیگر بہت سے اعمال بھی سیدھے ہاتھ سے کرنا ایک پسندیدہ چیز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اگر مقرر کیا ہے تو یقینا اس کے بہت سے دنیوی فائدے بھی ہوں گے، جس کی ایک مثال اس رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔لیکن دین کی یہ تعلیم اصل میں انسان کو قیامت کے دن کی پیشی یاد دلانے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ قیامت کے دن جب نیک لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کے ساتھ پیش ہوں گے تو ان کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ یہ اس بات کا ایک علامتی اظہار ہوگا کہ انہیں جنت کی ابدی کامیابی کی بشارت دے دی گئی ہے اور جہنم کے عذاب سے ہمیشہ کے لیے بچا لیا گیا ہے۔
اس دنیا میں انسان کی زندگی کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے۔ وہ یہ کہ جب قیامت کے دن ختم نہ ہونے والی ابدی زندگی کا آغاز ہو تو اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے۔ جسے پا کر وہ جان لے کہ اب اس کی زندگی خوشیوں کی وہ داستان ہوگی جس میں کبھی دکھ، غم، بیماری، موت، بڑھاپا، محرومی اور مایوسی نہیں آئے گی۔ داہنے ہاتھ کا استعمال کچھ اور نہیں، زندگی کے اسی مقصد کی یاددہانی ہے۔ یہ جنت کے شوق کا اظہار ہے۔ یہ خدا سے اس کی رحمت کی درخواست ہے۔