دور قدیم اور دور جدید ۔ ابویحییٰ
انسانوں کی فکری تاریخ کو تین نمایاں حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ماقبل از جدیدیت یا پری ماڈرن ازم (Pre Modernism) کا ہے۔ ہم قارئین کی سہولت کے لیے اسے زمانہ قدیم کا نام دے دیتے ہیں۔ زمانی اعتبار سے یہ ابتدا سے لے کر سترہویں کے وسط تک کا دور ہے۔ اس دور کی اصل خصوصیت یہ تھی کہ اس دور میں مذہب انسانی زندگی کا مرکزی خیال تھا۔ مذہب کی اساس وحی ہے۔ لیکن تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا کہ انسان وحی کو محفوظ کرسکے ہوں۔ چنانچہ جیسے ہی انبیائے کرام دنیا سے رخصت ہوتے، وحی میں تحریف ہوجاتی۔ جس کے بعد توہم پرستی (Superstitions)، تخیلات اور انسانی اضافے مذہب کے نام پر لوگوں میں رائج ہوجاتے ہیں۔
اس صورتحال سے ایک استثنا خاتم النبیین علیہ السلام اور ان کے صحابہ کرام کا زمانہ ہے جب وحی کی حفاظت کا خدائی اہتمام کر دیا گیا۔ تاہم مجموعی طور پر چونکہ اس دور میں ہر طرف توہم پرستی ہی کا دور دورہ تھا، اس لیے جیسے جیسے مسلمانوں کا فکری زوال بڑھا خود مسلم معاشرے توہم پرستی اور وحی سے عاری دینداری میں مبتلا ہوگئے۔ یوں اصل صورتحال میں کوئی بنیادی فرق نہیں آیا۔
پری موڈرن ازم میں چونکہ مذہب بنیادی قوت تھا اس لیے فطری طور پر مذہبی طبقات کو بہت طاقت حاصل تھی۔ اس کی نمایاں ترین مثالیں مسیحیت میں چرچ کا ادارہ اور ہندومت میں برہمن کا کردار ہے۔ سیاسی نظام زیادہ تر بادشاہت تھا، مگر بادشاہ بھی یعنی مصری حکمرانوں کی طرح خدا کے مظہر(god-kings) کی طرح حکومت کرتے یا مذہبی طبقات کو خوش کر کے خود کو سیاسی معاملات تک محدود رکھتے تھے۔
دور جدید کی آمد پر یہ صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ توہم کی جگہ عقلیت نے لے لی۔ اہل مذہب کی جگہ اہل دانش رہنما بن گئے۔ بادشاہت کی جگہ جمہوریت رائج ہوگئی۔ اس دور میں خدا، مذہب، وحی اور آخرت جیسے تصورات کو ماضی کا بے فائدہ ورثہ سمجھ کر ترک کر دیا گیا۔ سائنسی ترقی نے انسانی دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ کائناتی طاقتیں جو اس سے قبل عبادت کا موضوع تھیں، انسان کی خدمت کے لیے مسخر کرلی گئیں۔ انسانی معاشرے سماجی علوم کی بنیاد پر ایک نئے قالب میں ڈھل گئے۔ فرد کی آزادی دور جدید کا سب سے بڑا خیر قرار پائی۔ غرض صنعتی دور کی ترقی اور اس کے تقاضوں نے زراعتی دور کے افکار، اقدار، روایات سب کو بدل کر رکھ دیا۔
دور جدید کا ظہور یورپ میں ہوا تھا۔ تاہم نئی طاقت کے نشے میں سرشار یورپی اقوام نے دو ایسے کام کر ڈالے جن سے دور جدید کی فکری اساسات پر انتہائی بنیادی سوالات پیدا ہوگئے۔ پہلا سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظالمانہ فروغ تھا جس نے ارتکاز دولت کے ذریعے سے خود یورپ کے معاشروں میں عام انسان کی زندگی جہنم بنادی اور دوسرا بیسویں صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگیں جن میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ ان واقعات نے عقلیت پر مبنی جدید فکر کی افادیت پر سوالات پیدا کر دیے۔ اس پر مستزاد بیسویں صدی کی ابتداء کی وہ سائنسی دریافتیں تھیں جنھوں نے اس خیال کی نفی کر دی کہ انسان سائنس کے ذریعے سے کائناتی حقائق تک مکمل رسائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یوں مادی نظام فکر کی سائنسی اساسات پر ایک کاری ضرب لگی جس کے نتیجے میں اس کا اعتماد مجروح ہوگیا۔
چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر سے پوسٹ ماڈرن ازم کا فلسفہ وجود میں آیا جس نے علم اور عقلیت کے بجائے جذبات اور انسانیت کی بات کی اور قطیعت کے بجائے اضافیت، اور تحکم کے بجائے انفرادیت کو اپنا نعرہ بنایا۔ ان چیزوں کے نتیجے میں انسانی معاشروں میں مذہب کی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کرلیا گیا۔ امن اور بقائے باہمی کی اہمیت نمایاں ہوئی۔ تاہم جس طرح ماڈرن ازم نے زمانہ قدیم کے تمام اہم تصورات کو بدل کر انسانی معاشروں کو مکمل طور پر تبدیل کیا تھا پوسٹ ماڈرن ازم کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ یہ ایک ردعمل ہے جو ماڈرن ازم کی بعض کمزوریوں اور خرابیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اسی لیے چند تبدیلیوں کے سوا مجموعی طور پر انسانی معاشرے آج بھی ماڈرن ازم کے اصولوں پر ہی کھڑے ہوئے ہیں اور یہ سمجھنا کہ عقلیت، سائنٹفک انداز فکر، آزادی، جمہوریت اور دور جدید کی دیگر اقدار رخصت ہوچکی ہیں، محض ایک غلط فہمی ہے۔ یہ دراصل میں ماڈرن ازم پر ایک تنقید ہے۔
اس بات کو سمجھنا اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ ہمارے بعض فکری حلقوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ پوسٹ ماڈرن ازم میں مغربی افکار پر کی جانے والی تنقید کا مطلب عقلیت ماڈرن ازم کی شکست ہے۔ ہم اپنے مضامین، اپنے فکری حلقوں میں ماڈرن ازم کی شکست پر شادیانے بجاتے رہیں گے اور دنیا ماڈرن ازم کی پیدا کردہ خرابیوں سے نجات پالے گی، ایسا سمجھنا سوائے خوش فہمی کے اور کچھ نہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ماڈرن ازم کے افکار انفارمیشن ایج کے آغاز کے ساتھ مغرب سے آگے بڑھ کر مشرقی اقوام کو فتح کر رہے ہیں۔ عالمی سیاست کے افق پر نمودار ہونے والے تمام اہم کردار چاہے چین اور ہندوستان کی طرح ان کا تعلق مشرق سے ہو، دراصل ماڈرن ازم کی راہ کے مسافر ہیں۔
ایسے میں کرنے کا اصل فکری کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی اور قرآن مجید کی تعلیم کو بنیاد بنا کر ازسر نو اسلامی تعلیمات کو پیش کرنا ہے۔ وحی نے زمانہ قدیم میں بھی انسانیت کو ظلم کی بھٹی سے نجات دلائی تھی اور دور جدید میں بھی وحی کو سمجھنے اور اس پر عمل میں نجات ہے۔ آج کرنے کا کام یہ ہے کہ ہمارے بہترین دماغوں کو نفرت کی نفسیات سے باہر نکال کر محبت الہی سے سرشار کرنا ہے۔ وحی اور صاحب وحی کی تعلیمات کو سمجھنے کی طرف لگانا ہے۔ آپ کی سیرت کو ان کی زندگی بنانا ہے۔ اس کے بغیر ظلم و استبداد نہ پہلے ختم ہوا ہے نہ اب ختم ہوگا۔