بکنے والا مذہب ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں میں بال بنوانے کے لیے گیا تو ایک نیا مشاہدہ ہوا۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا مگر وہاں عین منہ کے سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔ اس پر ایک منقبت آرہی تھی جس کو پڑھنے والے اپنی عقیدت و محبت سے بڑھ کر اپنی پرستش اور بندگی کا جذبہ نچھاور کر رہے تھے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جس ہستی کی یہ منقبت پڑھی جارہی تھی وہ اگر اپنی زندگی میں سن لیتا تو پڑھنے والے اور پھیلانے والے دونوں کے جوتے لگواتا۔ خیر یہ منقبت ختم ہوئی تو میوزک اور گانے شروع ہوگئے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ تو ایک میوزیکل چینل ہے جس پر گانوں کے بیچ میں یہ منقبت لگائی گئی تھی۔ میڈیا میں جو بکتا ہے وہی چلتا ہے چاہے وہ کوئی مذہبی چیز ہی کیوں نہ ہو۔
حضرات انبیا علیھم السلام جو مذہب لاتے ہیں وہ ایمان و اخلاق کے تقاضوں پر مشتمل ایک سادہ دین ہوتا ہے۔ اس کے بعد آنے والے اس دین میں اضافے اور تبدیلیاں کرکے ایک نیا دین بناتے ہیں۔ اس دین کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ لوگوں کے سطحی جذبات کو بہت اپیل کرتا ہے۔ یوں یہ دین اصل دین کے مقابلے میں چلتا بھی ہے اور بکتا بھی ہے۔
اس دین میں توحید کے بجائے شرک اور سنت کے بجائے بدعت نمایاں ہوتی ہے۔ اس دین میں دعوت، نصیحت، خیر خواہی، مدلل تنقید کے بجائے نفرت، عداوت، بحث و مناظرہ، الزام و بہتان اور جنگ و جدال ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے بجائے موضوع اور ضعیف روایات پر زور ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ حسنہ اور آپ کے اعمال و اقوال کے بجائے عام انسانوں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔
ایسے دین کی مارکیٹ ویلیو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ دین ہر جگہ چلتا اور ہر ٹی وی اور یوٹیوب چینل پر بکتا ہے۔ مگر قیامت کے دن ایسے ہر دین کو رد کر دیا جائے گا۔ کاش لوگ یہ بات آج ہی جان لیں۔