بھرا گلاس خالی گلاس ۔ ابویحییٰ
اگر کسی میز پر ایک گلاس پانی سے آدھا بھرا ہوا رکھا ہو تو اس بات کو دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے کے دو پیرائے ہیں۔ ایک یہ کہ گلاس آدھا خالی ہے اور دوسرا یہ کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ دونوں صورتوں میں بظاہر فرق کچھ نہیں پڑتا لیکن درحقیقت یہ دو قسم کے انداز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔
منفی اور مثبت انداز فکر کیا ہوتا ہے اس کو ایک واقعے سے سمجھیے جو کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نے مجھے سنایا۔ وہ ایک روز کسی نشست میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بات چلی تو ذکر پاکستان چھوڑ کر باہر جانے والے نوجوانوں کا ہونے لگا۔ اس نشست میں موجود ایک صاحب نے اس پوری صورتحال کی ایک اندوہناک تصویر کھینچنا شروع کردی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان ملک چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں اور اس طرح جو برین ڈرین (Brain Drain) ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں کچھ عرصے میں ملک بنجر ہوجائے گا۔
اس بیان سے اس نشست میں مایوسی کی ایک فضا چھاگئی۔ ایسے میں میرے جاننے والے صاحب نے گفتگو میں مداخلت کی اور صورتحال کا ایک بالکل مختلف رخ دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ پڑھے لکھے نوجوان ملک سے باہر جارہے ہیں، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ انہوں اسی روز اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت کی تمام تر سخت ویزا پالیسیوں کے باوجود پچھلے برس ہزاروں پاکستانی طالب علم برطانیہ گئے۔ جبکہ جانے والوں کی ایک بڑی تعداد برطانوی شہریت بھی لے لیتی ہے۔ ان صاحب نے عرض کیا کہ یہی معاملہ دیگر ممالک جانے والے پاکستانی نوجوانوں کا ہے۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی باہر جانے والے پاکستانی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک بدترین حالات کے باوجود دیوالیہ ہونے سے بچا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر جانے والوں کا خاندان پاکستان ہی میں رہتا ہے۔ یہ لوگ ہر برس اربوں ڈالر کی فارن کرنسی وطن میں اپنے لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ ہر برس اس رقم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اسی رقم کی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ ایک حد ہی میں رہتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کو اس صورتحال کا نقصان اس لیے نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک کی غالب ترین اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے جتنا بھی برین ڈرین ہوجائے قابل لوگ پھر بھی موجود رہتے ہیں۔ بلکہ جانے والوں کی جگہ لینے کے لیے فوراً دوسرے لوگ آجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ملک کو کسی شعبے میں قابل لوگوں کی کمی کا سامنا ہوا ہو بلکہ جانے والوں کی وجہ سے بے روزگاروں کو روزگار بھی مل جاتا ہے۔ اس طرح ملک کو ہر دو پہلو سے فائدہ ہی ہورہا ہے۔
تیسرا اور ایک بڑا اہم فائدہ جو اس معاشی ہجرت کا نکلتا ہے کہ باہر جانے والے اپنے مذہب سے اور گہرے طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں۔ وہ ملک کے اندر رہتے ہوئے اچھے مسلمان نہیں ہوتے لیکن ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر جاکر نیکی کی زندگی اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے لوگ اسلام کا چلتا پھرتا تعارف بن جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے غیرمسلم خواتین کو مسلمان کرکے ان سے شادی بھی کرلیتے ہیں۔ یوں اسلام کی دعوت غیرمسلموں میں ان لوگوں کی وجہ سے تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس طرح یہ ہجرت بالواسطہ طور پر دین کی نصرت کا بھی سبب بن رہی ہے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہر معاملے کو دیکھنے کا منفی اور مثبت دونوں طرح کا طریقہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کا انداز فکر منفی ہوتا ہے وہ صرف منفی رخ سے چیزوں کو دیکھتے اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔ جبکہ مثبت ذہن کے لوگ ہر چیز میں خیر تلاش کرلیتے ہیں۔ وہ خود بھی روشنی دیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی دکھاتے ہیں۔ یوں لوگ اور ان کی امید ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ یہی وہ انداز فکر ہے جس کی آج ہمیں اشد ضرورت ہے۔