باہر کادودھ اور گھر کی گائے ۔ ابویحییٰ
مغربی اقدار کے دلدادہ کسی شخص نے کبھی کہا تھا کہ جب روزانہ تازہ دودھ بازار سے مل جاتا ہو تو گھر میں ایک گائے لاکر باندھنے اور اس کا گوبر صاف کرنے کاجھنجٹ پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس بلیغ تمثیل سے مراد یہ تھی کہ ایک خاتون کو بیاہ کر گھر میں لانے کے رواج سے کہیں بہتر ہے کہ آزاد جنسی تعلق سے انسان اپنی ضرورت پوری کرے اور ان ذمہ داریوں میں نہ پڑے جو جوانی کا مزہ کرکرہ کردیتی ہیں۔
زنا میں پائی جانے والی یہی وہ کشش ہے جس کی بنا پر قرآن مجیدنے انتہائی سختی سے اس کو نہ صرف ایک بڑا گناہ بلکہ قانونی جرم بھی قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنسی جذبے کو انسانوں کے لیے اتنا پرکشش بنایا ہی اس لیے ہے کہ انسان اس کی خواہش میں زندگی کی انتہائی مشکل ذمہ داریوں کو خوشی خوشی اٹھا سکے۔
کوئی بھی مرد و زن جب رشتہ نکاح میں بندھتا ہے تو وہ درحقیقت یہ فیصلہ کرتا ہے کہ نہ صرف فریق ثانی بلکہ اس سے پیدا ہونے والے رشتوں کی ذمہ داریاں بھی وہ اٹھائے گا۔ یہ ذمہ داریاں اٹھانا اور کما حقہٗ اٹھانا، آسان نہیں ہوتا۔ اس میں اپنا مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اپنا سکون و آرام قربان کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ناگوار حالات اور باتوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس میں صبر و ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔
ان قربانیوں کے بعد ہی وہ نسل وجود میں آتی ہے جو ماں باپ کو ایک مقدس روپ میں دیکھتی ہے اور ان کی قربانیوں سے خود بھی صبر و برداشت کا سبق سیکھتی ہے۔ حسن سلوک اور حسن خلق کے اسباق پڑھتی ہے۔ محبت اور شفقت کے جذبات کو دل میں محسوس کرتی ہے۔
نکاح کسی گائے کو گھر میں لانے کا نام نہیں، یہ ایک مکان کو اعلیٰ انسانوں کی تربیت گاہ میں بدلنے کا عمل ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو لذت پسندوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔