بچے اور تعلیم کا شوق ۔ ہمایوں مجاہد تارڑ
بچے کو پڑھائی زہر لگتی ہے؟ اُسے بتائیں آپ اُس کا مسئلہ منٹوں میں حل کرسکتے ہیں۔۔۔ کیسے؟
ذرا سی نیت ہو، آؤٹ آف باکس تِھنکنگ ہو، سوچ ہو، شمولیت، خلوص، اور ذرا سا تردّد تو آپ اپنے بچے کا اسکول والا اکیڈیمک سفر خوشگوار بنا سکتے ہیں۔
بیشتر بچے پڑھائی میں کمزور یا اوسط درجہ چلا کرتے ہیں۔ ذہین، سمجھدار، خوبیوں والے مگر نصابی کتابیں اِنہیں زہر لگتی ہیں۔ بس اوسط درجہ ہاتھ پاؤں مار کر پاسِنگ گریڈز ہتھیا لیتے ہیں، اور کسی طور گاڑی گھسیٹتے رہتے ہیں۔
اگر آپ اِن کی نفسیات پر چھائے نادیدہ وزن یا بوجھ کا اندازہ لگائیں تو ایک دن میں اِن کے حصّے کا اصل وزن بنتا تو 5 کلو ہے مگر شومئیِ قسمت یہ اُس سے کئی گنا وزن اُٹھائے ہوتے ہیں۔
اصلی والے پانچ کلو وزن کو آپ 50 سے ضرب دے ڈالیں۔ یہ رہا 250 کلو وزن! یقین جانیں، آپ کا بچہ صبح و شام اپنے ننّھے دماغ پر ناحق 250 کلو وزن کی بوری اُٹھائے پھرتا ہے:
1۔ اساتذہ کی نظروں میں average اور below average طالبِ علم ہونے کا تاثر۔ بس گزارا ٹائپ ہونے کا ٹائٹل، زیادہ ذہین نہ ہونے، یا زیادہ محنتی نہ ہونے کا کربناک تاثر جو اُس کے اعتمادِ ذات کو کچلے دیتا ہے۔
2۔ والدین کی نظروں میں پڑھائی سے بھگوڑا، کام چور، نالائق، کُند ذہن۔
3۔ اپنے فیلوز کے ساتھ پڑھائی اور گریڈز کے اعتبار سے موازنہ و مسابقت کا احساس۔ اُن سیکم تر ہونے اور مسلسل ایسا رہنے کی ٹینشن۔
سچ کہوں تو دو چار بچوں کے سِوا کوئی بچہ اسکول تک تحصیلِ علم کے شوق میں نہیں آتا۔ بلکہ اِن سینکڑوں، ہزاروں بچوں میں سے ہر ہر بچہ، ہر روز، صبح بستر چھوڑنے سے لے کر رات بستر پر دراز ہونے تک فقط ایک شے کی تلاش میں رہتا ہے، اور وہ ہے اپنے حق میں taste of accomplishment۔
یعنی آپ کا بچہ اپنے حق میں تحسین بھری گواہی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ بھلے وہ تحسین کھیل کے میدان میں ہو، کمرہ جماعت میں پڑھائی، ٹیسٹ کی صورت میں، یا اُسے یہ اعتمادِ ذات کسی ہم نصابی سرگرمی میں شمولیت کی صورت نصیب ہو۔ یہ بچہ اپنے حق میں، ہر روز، کچھ ایسا سننا چاہتا ہے:
بھئی واہ، عبداللہ نے کیسی عمدہ چھلانگ لگائی، اور گرا بھی نہیں!
بھئی واہ، سلمان نے دو کھلاڑیوں کو ڈاج کرائی اور گول تک جاپہنچا!
بھئی واہ، حذیفہ نے سائنس کا ٹیسٹ سب سے پہلے ختم کیا!
بھئی واہ، عمر کو ریاضی کا سوال فوراً سمجھ میں آگیا!
بھئی واہ، عائشہ نے کیسی عمدہ ریڈنگ کی!
یہ ”تمغہ حُسنِ کارکردگی“ اُسے اسکول دینے سے تو رہا۔ تیس، چالیس، پچاس طلباء کی کلاس میں کوئی اُستاد دے بھی کیسے سکتا ہے؟
اہم، ایک صورت ممکن ہے، اور وہ ہے والدین کا کردار، والدین کی شمولیت۔ آپ کیسے مدد کرسکتے ہیں؟
پھر دوہرا دوں، جس بچے کو پڑھائی زہر لگتی ہے، اُسے بتائیں آپ اُس کا مسئلہ منٹوں میں حل کرسکتے ہیں۔ کیسے؟
فرض کرتے ہیں، آپ کا بچہ گریڈ 6 میں ہے، اور سائنس ایک مشکل مضمون ہے (چونکہ تعلیمی اداروں میں سائنس کو محض ایک نصابی کتاب سمجھ لیا گیا ہے، رَٹا مار مار کر امتحان پاس کرنے کا ذریعہ نہ کہ رنگا رنگ تجربات کرنے، سوالوں کے جواب کھوجنے، تلاشنے، کچھ کری ایٹ کرنے اور نتائج اخذ کرنے کا ایک دلچسپ ’عمل‘ جو بچے کو قدم قدم پر کچھ achieve کر جانے کی خوشی دلا سکتا ہے)۔
آپ اس کی کتاب کھولیں، یا گوگل کر لیں Grade 6 Science Topics List لکھ کر۔
آپ جلد ہی جان جائیں گے کہ اِس درجہ پر آپ نے بچے کو درج ذیل عنوانات پر آگاہی دینی ہے۔ اِن کی تعداد 8 ہے۔
Objects in Space
Forces and Movement in Space
Force and Motion
Newtons Laws and Energy
Electricity and Magnetism
Earth Systems
Rocks and Minerals
Plate Boundaries and Movement
جبکہ نصابی کتاب اندر اِنہیں 10 یونٹس میں پھیلا کر 10 عدد چیپٹرز میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ موٹی موٹی انگریزی میں لکھا بَلڈی بورِنگ سَٹف! چلیں یہ بھی ٹھیک ہوگیا۔
اب پہلی بات، آپ بچے سے اِس فہرست کی ایک ریڈنگ کرائیں، اور خود کریں۔
دوسری بات، آپ پہلے والے ٹاپک کے الفاظ یوٹیوب کی سَرچ بار میں لکھ دیں۔ جواباً بیسیوں ویڈیوز ظاہر ہوں گی۔ آپ یوٹیوب پر گریڈ 6 سائنس بھی لکھ سکتے ہیں۔ یا ہر چیپٹر کے اندر ضمنی عنوانات ہوا کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ فرداً فرداً لکھے جاسکتے ہیں۔ جواباً ہر موضوع پر بیسیوں ویڈیوز ملیں گی۔ اِن میں سے قدرے آسان والی ویڈیوز منتخب کرلیں، اور ٹارگٹ یہ ہو کہ ہمیں جاننا ہے آخر اس موضوع پر اِس ویڈیو میں کیا کچھ کہا گیا ہے۔
تیسری بات، آپ بچے کی مدد کرنے چلے ہیں۔ آپ کے اندر اتنا صبر ہونا چاہیے کہ ایک پوری ویڈیو ساتھ بیٹھ کر دیکھ ڈالیں۔
چوتھی بات، وقفے وقفے سے ویڈیو کو pause کریں اور بات چیت کریں، یا چھوٹے چھوٹے سوالات کرتے جائیں۔ درست جواب ملنے پر تحسین سے نوازیں۔
پانچویں بات، ضروری نہیں آپ خود عالم فاضل ہوں تب ایسا ممکن ہے۔ یہ ویڈیوز اردو، انگریزی ہر زبان میں دستیاب ہیں۔ نیز، کچھ آپ کی سمجھ میں آئے گا تو باقی بچہ صاحب کی سمجھ میں۔
چھٹی بات، ویڈیو کے اختتام پر بچے سے کہیں تمام نکات کا خلاصہ بتائے۔ وہ یقیناً بتائے گا چونکہ دورانِ ویڈیو واچِنگ ہر نکتے پر پہلے سے بات ہوچکی۔
ساتویں بات، ایک پورے چیپٹر کے برابر دو تین ویڈیوز دیکھ چکنے کے بعد اب سلیبریٹ کریں، تحسین دیں۔ کسی پھپھو، آنٹی، چچا، ماموں وغیرہ کو بتا کر واٹس ایپ پر حیرت کا اظہار کروائیں وغیرہ۔ بچے کو لگے کہ سَمتِھنگ غیرمعمولی achieve کرلیا گیا ہے۔ حتی کہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق بچے کی سائنس ٹیچر سے رابطہ کر کے تحسین دلائیں۔
آٹھویں بات، بچے کو لکھنے سے چِڑ ہے؟
نو پرابلم۔ آپ اُسے بتائیں کہ سارا نالج اب آپ کے پاس ہے۔ اصل کام تو یہی تھا۔ البتہ بس ایک صفحے پر اس کے پوائنٹس لکھنا ہیں جو آپ اپنی ٹیچر کو دکھائیں گے۔ بلکہ یہ بات بچے کی ٹیچر سے کہلوائیں۔ کچھ اِس طرح:
”واؤ عمر، کمال کر دیا بھئی! لیکن یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ آپ نے جو لَرن کیا، اس کے پوائنٹس لکھ کر لاسکتے ہیں یا نہیں۔ صرف پوائنٹس!“
اب آپ خود ہی بتائیں، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی تحسین کے بعد بچہ لکھنے پر آمادہ نہ ہو؟ آپ دیکھیں گے کہ بچے کا جوش و خروش عروج پر ہوگا۔
نویں بات، ضروری نہیں اگلے چیپٹر کی ساری ویڈیو آپ کو پاس بیٹھ کر دیکھنا ہے اور اتنی ہی اِنوالومنٹ دینی ہے۔ بلکہ یہ کام بس شروع کروانا ہوگا، اور گاڑی چل پڑے گی۔
دسویں بات، بتدریج حوصلہ و صبر کے ساتھ بچے کو ہر چیپٹر کے ٹاپِکس پر ویڈیوز دکھا کر نصابی مواد ختم کر دیں۔ پہلا چیپٹر مکمل ہو جائے تو ہوا میں مُکّا لہر کر اعلان کریں:
We are going to finish this book in just seven days by watching about 15 to 20 videos.
آپ یقین جانیں، کُل ملا کر یہ کام پانچ سے چھ گھنٹوں کا بنتا ہے۔ کوئی ویڈیو دس منٹ کی تو کوئی پندرہ منٹ کی۔
اب ایک اور بات۔
اس بچے کو بتائیں ”ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر ٹاپک پر آپ کا نالج مکمل ہو۔ اچھے گریڈز ہمیں نہیں چاہئیں۔“
یہ کہہ کر آپ نے دو کام کر دیے:
اوّل، آپ نے بچے کے دل و دماغ اور نفسیات پر لدی 250 کلو وزنی بوری اُتار لی ہے۔
دوم، آپ نے اپنے بچے کو taste of accomplishment عطا کر دیا ہے۔ اُسے اعتمادِ ذات سے نواز دیا ہے۔
اب ایک کام اور کریں۔ سب سے زیادہ ضروری!
سائنس کی کتاب اِس طرح کوَر کرانے کے ساتھ ساتھ آپ خفیہ طور ایک تحریری کوئز تیار کرتے رہیں۔ مختصر جوابات والا کوئز! بے ترتیب انداز میں یہ سوالات آپ بچے سے پوچھتے رہیں تاکہ اُسے اِن کے جوابات ازبر ہو جائیں۔ تمام ٹاپِکس کور ہو چکیں تو یہ کوئز آپ بچے کی سائنس ٹیچر کے سپرد کر دیں۔ اُس سے درخواست کریں کہ دو چار روز بعد کسی خالی پیریڈ میں، یا کوئی بھی موقع دیکھ کر، صرف دس منٹ کے لیے، آپ کے بچے کو سب کے سامنے کھڑا کر کے یہی سوالات سرپرائز ٹیسٹ کے طور پر اُس سے پوچھے۔ جب آپ نے ایسی منفرد کوشش کی ہے تو یہ آپ کے بچے کا حق ہے۔
آپ دیکھیے گا، اِس بچے کی خوشی کا عالم کیا ہوگا۔ ٹیچر کوئز کے درست جوابات دیے جانے پر سب کے سامنے اعلان کرے کہ اصل چیز تو ہر ٹاپک پر نالج رکھنا ہے جو اِس نے کر دکھایا……اَیپلاز!…… اور کوئی چھوٹا موٹا انعام بھی دے ڈالے۔
یعنی کسی طور غیر محسوس انداز میں یہ ڈرامہ ارینج کروائیں۔ یہی فارمولا دیگر مضامین کے لیے آزمایا جاسکتا ہے۔
رہے نام نہاد گریڈز اور اچھے اداروں میں داخلے کا لالچ اور اکیڈیمک اَچیومنٹس، تو یہ آپ اپنے دوسرے بچوں پر چھوڑ دیں، اور دنیا میں دیگر مقامات پر پائے جانے والے دیگر بچوں پر جو ذرا پڑھاکو ٹائپ واقع ہوئے ہیں۔ اور بعید نہیں کہ عملی زندگی میں اِسی بچے کا گراف آف اَچیومنٹ سب سے زیادہ ہو۔
ذرا گھر سے باہر والے منظر پر ایک نگاہ کریں۔ میٹرک فیل بچوں نے پلازے کھڑے کر دیے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹل، ریستوران، اور ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ملکوں ملکوں گھوم کر جانے کیا کچھ اٹھا کھڑا کیا ہے۔ میگا پراجیکٹس لگا دیے ہیں، اور Its an interesting irony کہ کل کے اے گریڈ ہولڈرز آج اپنے CV پالش کر کے اِنہی اَیوریج طلباء کے ہاں جاب انٹرویوز کے لیے بھاگے جا رہے ہیں۔
آج کے لیے اتنا ہی سبق…… بہت دعائیں!